نہ آر نہ پار، بے کار

تحریر: ناہیدہ سیف ایڈووکیٹ
مینار پاکستان میں پی ڈی ایم جلسے کی تیاری مہینوں پہلے جاری تھی اور اس جلسے کو نہ صرف پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑا جلسہ بلکہ اس حکومت سے نجات کا ذریعہ بھی پی ڈی ایم کے میزبان پارٹی ن لیگ کی سربراہ مریم نواز صاحبہ نے خود قرار دیا تھا یہی وجہ تھی کہ مینار پاکستان کے اتنے وسیع عریض میدان جو کہ غالبا ایک سو پچاس ایکڑ پر مشتمل ہے کا انتخاب کیا گیا ورنہ ناصر باغ یا مال روڈ بھی جلسہ جلسوں کے لئے استعمال کئے جاتے  ھیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک بہت بڑا جنازہ اس میدان میں ادا کیا جو کہ اپنی مثال آپ تھا۔ اپنے تو اپنے غیر بھی اس نماز جنازے پہ رشک کئے بغیر نہ رہ سکے خیر  روحانی دنیا کی اپنی طاقت اور اپنی کہانی ہوتی ہے جس پہ ہم جیسے لوگ نہیں پہنچ سکے۔ صرف سنا ہے جو اس عشق و مستی کی دنیا میں قدم رکھتا ہے وہ اس دنیا سے بیگانہ ہوتا ہے پھر اس سرسری اور فیک دنیا کی کوئی چیز اس بندے کو نہیں بھاتی اور  اس پر انعام اکرامات کے طور طریقے بھی الگ انداز سے کیے جاتے ہیں دنیا  اس بندے کے پیچھے بھاگتی ہیں اور  وہ اپنی فقیری میں مست رہتا ہے  یہ راز عام انسانوں کی پہنچ سے بہت دور ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی مینار پاکستان کے جلسہ کی تو ن لیگ کی لیڈرشپ کے بارے میںبھی کہا جاتا ہے کہ  اس جنازے سے متاثر ہو کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہمارا جلسہ بھی اتنا بڑا ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں جو جتن کئے گیے جو گلی کوچوں میں۔جا کر دعوت دیئے گئے اس سے اس کی اہمیت  بڑھ گئی تھی  اس طرح عام لوگوں کو بھی تجسس ہو گیا کہ کیا ہونے جا رہا ہے اور حکومت بھی تھوڑے تھوڑے گھبرائی نظر آئی۔
گویا جلسہ نے اپوزیشن کی ان سب امیدوں پر پانی پھر دیا جو کہ گیارہ جماعتوں کے کارکنوں پر مشتمل تھا اس حساب سے دیکھا جائے تو بس ٹھیک ہی تھا ۔عام جلسہ تھا
اس جلسہ میں لوگوں کی عدم دلچسپی کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہے ایک وجہ تو یہ ہے کہ آج ن لیگ کی لیڈرشپ جن کو برا بھلا کہتی ہیں وہ اسی ن۔لیگ پر کبھی ایسے بھی مہربان ہوا کرتے تھے کہ ان کو کبھی بڑے بڑے جلسے کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ہمیشہ حکمرانی دہلیز پہ لاکر بغیر محنت مشقت ملتی رہی۔ آج ن۔لیگ کو یہ بھی غصہ ہے کہ ہمارے علاوہ کسی اور کو کیوں لاڈلا بنایا گیا لیکن لاڈلا بنانے والوں کا خیال۔ہے ہم چوں چوں کے عادی نہیں اور جو غیر ضروری  ہمارے دیئے ہوئے پر نکالنے کی کوشش کرے  ان کو ہم کاٹ دیتے ہیں یہ بحث بہت لمبی ہے۔
لیکن اپنی نالائقی اور کمزوریوں کو اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے چھپا کر سیاست کرنا گویا پاکستان میں رواج بن گیا تھا  جو کہ اب بہت طرح فلاپ ہو رہا ہے وجہ اس کی یہ ہے ساری دنیا میں اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کوئی حکومت نہ آسکتی ہے نہ چل سکتی ہے یہ ضرور ہے کہ وہاں ہر جگہ چیک اینڈ بیلنس ہے اسی طرح جسطرح وہاں  سیاستدان پر اگرکرپشن کا الزام لگ جائے تو وہ  منہ چھپا کر معافی مانگ کر چلے جاتے ہیں اور اس کی پارٹی کا کوئی ممبر اس کی حمایت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ انہوں نے اپنے ادارے مظبوط بنائیں اور ان پر بھروسہ کو اپنا فرض بنایا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے امریکن الیکشن میں ٹرمپ صاحب نے جوباءیڈن پر دھاندلی کا الزام لگا یا ۔شور شرابا کیا۔لیکن کچھ دن پہلے الیکٹوریل کالج نے ان الزامات کو مسترد کر دیا  کسی کی مجال ہے چوں کرے ریپبلکن کو ماننا پڑا ۔قریبی ملک انڈیا کو دیکھ لے ان کو بھی اپنے اداروں پر اعتبار ہے نہ کبھی دھاندلی نہ کبھی اسٹیبلشمنٹ کا رونا حالانکہ  وہاں بھی اداروں کی آشیرباد سے ہی حکومت بنتی ہے مودی کے بارے میں وہاں بھی یہی رائے ہے۔لیکن ہمارے حکمرانوں نے نہ کسی ادارے کو قابل اعتماد بنایا۔ ہر ادارے کو خریدنے کی کوشش کی ۔باقی سالوں کو چھوڑو پچھلے دس سال ایک دوسرے کو معافی دینے کے علاوہ۔ اسٹیل ملز پی آئی اے جو کسی زمانے میں بہت نیک نام ادارے تھے ان کو بٹھا کہ رکھ دیا جہاں پانچ سو لوگوں کی نوکری کی ضرورت تھی وہاں ہزار ادمی لگاءو گے تو کسی دن اس ادارے نے بیٹھ ہی جانا ہے۔
یہاں  ڈھٹاءی کی انتہا ہے بے ایمانی کے کیسز بہت فخر سے عدالت میں لے کہ جاتے ہیں اگر خلاف فیصلہ آئے تو ان ججز کو چوراہوں میں جو سنایا جاتا ہے وہ بھی ایک الگ بحث ہے بھئ کسی ادارے کی تو لاج رکھ لو ۔ صرف رہ گیا ایک فوج کا ادارہ باقی تو سارے ان کے اپنے ڈیپارٹمنٹ ہیں جب چاہے کسی کو جج لگائے اور جب چاہے کسی کی مجبوری کا علط فائدہ اٹھا کر بھری محفل میں کوئی پرائیوٹ وڈیو چلا کر اس بندے کو اتنا ذلیل  کرے کہ اس غم سے ہی وہ نہ نکل پائے اور فوت ہوجائے۔
کچھ عرصہ پہلے پنجاب کی ایک ممبر اپنے والد کا ذکر کرتے ہوئے بتا رہی تھی کہ میرے والد ہائی کورٹ کے جج بھی رہے اور وہ ایک پارٹی کے بانی ممبر میں سے تھے سوچے کی بات ہے کہ ایک پارٹی کا بانی ممبرجج بن جائے تو اس نے سیاست دان کو باعزت بری ہی کرنا ہوتا ہے بھئ اپ اس کو کوئی اور عہدہ دے دیں آپ اس کو جج  کیسے بنا سکتے ہو تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر ادارے کو ماضی میں اسطرح خریدا گیا ،ایک فوج۔کا ادارہ ہے جو ان کے قابو میں۔نہیں آرہا تو دشمنی تو بنتی ہے ۔ کرپٹ سیاستدانوں کے منحوس پنچوں سے انہوں نے اپنے ادارے کو محفوظ رکھا ہوا ہے  یہ بھی شکر ہے۔
آجکل کوئی چیز عوام۔کی آنکھوں سے اوجھل نہیں آج سے کچھ سال پہلے سیاست کا زاویہ کچھ اور تھا آج کچھ اور ہے اس وقت کے جو نوجوان تھے ان کی سوچ الگ تھی وہ اپنا وقت گزار چکے اور آجکل کے نوجوان کی سوچ الگ ہے وہ ایک باشعور دنیا سے باخبر نوجوان ہے ہر کسی کا کٹا چٹا ایک فنگر ٹپ کی دوری پر ہے وہ انٹر نیٹ کی دنیا کا ہے وہ شاید چند پرنٹ میڈیا اور چند چینلز کا محتاج ہی نہیں جو کہ کچھ سال پہلے کسی کی سوچ بھی نہ تھی اتنی آسانی سے نہ اس کو بھڑ کایا جا سکتا ہے نہ ہی اکسایا جا سکتا ہے 
نہ۔ہی چند رنگین نعرے جن کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ہوتا اس کو متاثر کر سکتے ہیں۔ البتہ چند مراعات یافتہ لوگ ضرور اپنے مفادات کے لئے ساتھ ہوتے ہیں لیکن جب وقت آتا ہے تو ان کے ساتھ چند ہزار لوگ بھی نہیں آتے  جو لاہور میں ہوا گیارہ ایم۔پی ایز اور غالبا چودہ ایم۔این ایز ہونے کے باوجود کوئی خاطر خواہ نتیجہ یہ جلسہ نہیں دے سکا بلکہ حکومت میں جو تھوڑی بے چینی تھی وہ بھی ختم ہو گئی اسی چند لمحے بعد وزیراعظم کا بیان آیا این آر او نہیں دونگا،
اسٹیج پہ جتنے بھی لوگ جو جمہوریت کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہوتے ہیں  آگے پیچھے سارے موروثی سیاستدان اگر جمہوریت اتنی ہی اچھی ہے تو اپنی جماعتوں میں۔پہلے اس کو رائج کرو ورنہ آجکل کون بےوقوف بنے گا ۔ 
فوج عدلیہ کے بعد اس دفعہ میڈیا بھی عتاب پر تھا کہ جلسہ کو دیکھا یا  نہیں گیا حالانکہ پورا دن کوریج تھی ویسے بھی اگر کوئی چیز انہونی ہو تو وہ خود بخود میڈیا کی آنکھ کو اپنی طرف کھینچتی ہے مولانا خادم حسین رضوی صاحب سے زیادہ اس میڈیا کو کوئی نہیں کھٹکتا تھا لیکن انکا جنازہ دیکھا نا میڈیا کی مجبوری بن گئ کیونکہ اتنے زیادہ مجمعے سے آنکھ تو نہیں چرایا جا سکتا اور ان کے پاس تو کوئی ڈرون بھی نہیں تھے کہ مرضی سے بڑا کر کے دکھاتے۔
گلگت بلتستان کے الیکشن کے بعد یہ دوسری بڑی  سبکی اپوزیشن کو ملی جن کے بیانیے کو عوام میں پذیرائی نہیں ملی۔جو لوگ کہتے ہیں کہ گلگت اور کشمیر میں فیڈرل کی حکومت  دیکھ کر ووٹ  ڈالے جاتے ہیں ۔وہ کشمیر کے بارے میں سراسر غلط تجزیہ دے رہے ہیں ان کو کشمیر کی تاریخ پڑھنے کی ضرورت ہے کشمیر میں۔ عبدالقیوم خان کی حکومت رہی جب فیڈرل میں ن لیگ کی حکومت تھی بعد میں انکے بیٹے سردارعتیق وزیراعظم رہے یہ ان کی قومی  پارٹی مسلم فرنٹ سے تعلق رکھتے ہیں اس کے علاوہ بھی وہاں فیڈرل کی آشیرباد کے بغیر حکومتیں رہی ۔البتہ اگر گلگت کا ایسا کوئی تاثر  ہے تو بھی کچھ سیٹیں تو لی جا سکتی تھی کچھ بہتر پوزیشن میں۔ایا جا سکتا تھا لیکن ایسا نظر نہیں آیا۔
جب اپ کا بیانیہ اپ کے کردار سے میچ ہی نہ۔کرے تو وہ کیسے پنپ سکتا ہے اپ پاکستان کے ساتھ ان کے اداروں کے بعد اب براہ راست لوگوں کی بےعزتی پہ اتر آئے ہو لاہور جلسہ میں ایک صاحب اٹھ کر صدیوں پرانے مردے اکھاڑے کی کوشش کی کیسے لوگ ہیں۔لیڈر لوگوں کو یکجا کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ جہاں بھی جاتے ہیں صوبائی نفرت علاقائی نفرت پھیلا نے کی علاوہ کبھی ملک اکھٹا رکھنے کی بات نہیں کرتے ان کو اپنا منجھن بھیجنے کے لیے کبھی پاکستان اداروں تو کبھی پنجاب کے خلاف غیر مناسب الفاظ استعمال کرنے ہی ہوتے ہیں ابھی تک یہ نہیں سمجھ ایا کہ اسکا مقصد کیا ہے ۔ پنجاب کے لوگ بڑے دل۔کے لوگ ہیں وہاں کی اکثریت من موجی اپنی دنیا میں رہنے والے اور اس گندی سیاست سے خود کو دور رکھنے والے ہیں انہوں نے اپ کے اس احمقانہ بیس لیس بات کو معاف کیا وہ ہمیشہ کی طرح بڑا دل رکھتے ہیں انہوں نے سب کو پذیرائی دی ۔دوسرے صوبوں کے لوگوں کو بھی انہوں نے لیڈر بنایا پھر اس نفرت کی وجہ سوائے چھوٹی سوچ کے اور کچھ نہیں۔
افعانستان بھی ہمارا ہے وہ بھی ہمارے اپنے لوگ ہیں البتہ نفرت پھیلانے والی سوچ کا ملک اور قوم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا سمجھ لیجیئے جن کو نفرت پھیلا کر کچھ حاصل کرنے کی جستجو ہوتی ہے اسکا کوئی ملک اور قومیت نہیں ہوتی 
اگر دم خم ہو تو آگ لگائے بغیر بھی بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے اس کے لیے کسی مخصوص علاقے یا قومیت کا ٹیک لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی علاقے اور قومیت کی پہچان خود بخود ہو جائے گی جب صحیح طریقے سےاپنا پہچان بندہ بنا لیتا ہے۔ ورنہ کچھ ملنے کے بعد بھی رسوائی مقدر بنتی ہے۔
بہرحال اس سب کے باوجود اس بات میں ابھی تک کوئی دوراءے نہیں کہ اصل مقابلہ حکومت کا ن لیگ سے ہے باقی تو چھوٹی چھوٹی علاقائی اور صوبائی جماعتیں ہیں۔ ان سے کوئی خطرہ نہیں اصل خطرہ ں لیگ ہے جس کا ووٹ بینک ابھی بھی پنجاب میں مظبوط ہے اور پنجاب ہی فیصلہ دیتا ہے کہ ملک کا حکمران کون بنے گا ۔۔کل کا نہی پتہ کہ ن لیگ اس کو برقرار رکھ پاتی ہے یا نہیں۔
عمران خان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ان کے سامنے حریف اخلاقی طور پر کافی کمزور ہے کرپشن کے کیسز میں۔پھنسے ہوئے ہیں پارٹیوں میں ووٹ بھیجنے والوں اور ایمان داروں لوگوں میں کوئی فرق نہیں  جس کی وجہ سے عام لوگ ان سے بد ظن ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں اور اسکا فائدہ موجودہ حکومت کو مل رہا ہے ورنہ اتنی مہنگائی اگر کسی اور حکومت میں ہوتی تو اس کےلئے بہت مشکل ہوتا۔
استعفوں کی بات تو چلتی دیکھائی نہیں دے رہی جو پارٹیز سینٹ الیکشن میں اپنے بکے ہوئے ممبرز کا مواخذہ نہیں کر سکتی ان کے کہنے پر استعفی کون دے گا یہ بھی ایک سوالیہ نشان  ہے جو پارٹی ایماندار اور دھوکہ باز  میں فیصلہ کرنے کی جرت نہ ہو اس پارٹی کی ساکھ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 
اب پی ڈی ایم کا اگلا پڑاؤ لانگ مارچ ہے لانگ مارچ کے جو کرتا دھرتا ہے ماءوزے تنگ ان نے جو مارچ کیا تھا  اس مارچ میں لاکھوں لوگ میں صرف شاید گیارہ ہزار کے قریب لوگ زندہ بچے تھے اور جان گنوانے والوں میں ماءوزے تنگ کے دو جوان بیٹے اور بھائی بھی شامل تھے لانگ مارچ اس طرح چلائے جاتے ہیں اور جو عظیم مقصد کے لئے ہوتی ہے یہاں تو لیڈر باہر آرام دہ ماحول میں بیٹھ کر اور باقی دیسی مرغی کے شوربے کا آرڈر کرا کہ چند گھنٹوں کے لیے اسٹیچ پراکر کووڈ کے اس نازک وقت میں وہی گھسی پٹی رٹی رٹائی تقریریں دوسروں کے ال اولاد کو بیمار کرانے پہ تلے ہوئے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا۔اگر یہ کچھ مہینوں کے لیے کووڈ کی وجہ سے یہ جلسے ملتوی کر دیے جاتے لیکن نہیں انہوں نے ہر حال میں صرف اپنے بارے میں سوچنا ہے ذاتی مقاصد کے لیے۔
جب ذاتی مقاصد آڑے آجاتے ہیں تو پھر جلسے نہ ار ہوتے ہیں نہ پار لیکن بےکار ضرور ہوتے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest