اخلاقی تنزلی
اورنگزیب شھزاد
بنی نوع انسان کیلیے اخلاق اسکا عظیم سرمایا جانا جاتا ہے.انسان کتنے ہی خوشنصیب، دولت مند اور شعور رکھتا ہو لیکن اگر اسمیں یہ زیور نہ ہو تو پیچھے یہ چیزیں بیکار سمجھی جاتی ہیں. اخلاق ہی وہ آینہ ہے جس سے آپ پوری دنیا کو متاثر کر سکتے ہو اور یہ آینہ اتنا نازک ہے کہ ایک دفعہ ٹوٹ جاے یا اسمیں داغ لگ جاے تو پھر نہ تو جوڑا جاسکتا ہے اور نہ اس داغ کو مٹایا جاسکتا ہے. لیکن آج کے دور میں اگر دیکھا جائے تو ہم اس اقدار سے دور ہوتے جارہے ہیں. خصوصا آجکل کے نوجوانوں میں اخلاقی اقدار ناپید ہوتی جارہی ہیں.
نوجوان نسل کسی بھی قوم کیلیے ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے اور قوم کو ان نوجوانوں پر بڑا فخر بھی ہوتا ہے اور ہونا بھی چاھیے.
یہ بات قارئین کو ناگوار بھی لگے گا لیکن بندہ ناچیز کرے بھی تو کیا کرے سچ سچ ہی ہوتا ہے چاھیے کتنا کڑوا ہی کیوں نہ ہو.
ہم بحثیت قوم اخلاقی اور زہنی لحاظ سے بہت گر چکے ہیں اور مزید تنزلی کا شکار ہوتے جارہے ہیں. اکثر آپ نے پبلک ایریا میں دیکھا ہوگا یا ہر ہاسٹل میں آپ نے تقریبا نوٹ کیا ہوگا کہ واش روم کے دیوار پر یہ آویزاں ہوتا ہے کہ بھائی پانی ڈال کر جایے گا اور یہ اسی عمارت میں آویزاں ہوتا ہے جہاں کالج اور یونیورسٹی کے بچے پڑھتے ہو.
سوال یہ اٹھتا ہے کہ بندہ کالج تک تعلیم حاصل کی یا یونیورسٹی لائف جاری ہے لیکن اسے یہ نہیں پتا کہ کس طرح واش روم استعمال کرنا ہے یا ڈسٹ بین لگی ہوئ ہوتی ہے اور وہاں لکھا ہوتا ہے (use me) او خدا کے بندے اسکو رکھنے کا مطلب ہی اسکو استعمال کرنا ہوتا ہے. یہ شو پیز تھوڑی ہے.
اکثر آپ نے دیکھا ہوگا کہ مرد اور خواتین کیلیے واش روم کی الگ الگ نشاندھی کی ہوتی ہے لیکن کچھ حضرات عورتوں کے واش روم میں بھی گھسنے کو تیار.
تو ہم جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ تو بیکار ہے. اسکا کوئی فائدہ نہیں۔اگر آج بھی واشروم میں اسطرح کی نوٹ آویزاں ہوتی ہے اور پبلک ایریا میں اس طرح کے بورڈ لگے ہوتے ہو تو اس قوم کا اللہ ہی حافظ۔اور اس تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں۔
پبلک پلیس میں عوام کو ریلیف دینے کیلیے جو جو گلاس رکھا ہوتا ہے اس کے اوپر سوراغ کر کے زنجیر لگا کے دوسرا حصہ نلکے سے باندھ کر اس میں تالا لگایا جاتا ہے.ایسا کیوں کرتے ہے پتہ ہے کیونکہ انکو پتہ ہے اس گلاس نے چوری ہونا ہے.ایک دن سے زیادہ نہیں رہے گا.
اسی سوچ اورعمل کو لیکے یہ لوگ نکلے ہے بڑے بڑے ملکوں سے مقابلہ کرنے۔
او صاحب! پہلے اپنا قبلہ تو درست کرو پھر یہ باتیں سوچنا.
کچھ دن پہلے BRTپشاور میں سفر کر رہا تھا تو بس میں فیمیل سیٹ پر ایک بندہ بیٹھا ہوا تھا. میں نے کہا شیخ صاحب یہ سیٹ خواتیں کیلیے ہے نہ کہ مردوں کیلیے. آگے سے جواب ملا نوجوان جس سٹاپ پر اترنا ہے اسی پر دھیان دو تو اچھا ہے کہیں بس آگے نہ نکل جاے.
اب بندہ ناچیز کیا کرسکتا ہے، عمر میں بھی بڑا تھا، خاموشی کو ہی غنیمت جانا اور اپنے اسٹاپ پر آس لگائے کھڑا رہا کہیں بس آگے نہ نکل جائے. کیونکہ موصوف کو غصہ بھی چڑھا تھا اور وہ بھی جوانی والا غصہ.
اترتے وقت یہ سوچا کہ اس قوم کا سچ میں کچھ نہیں ہوسکتا لیکن پھر کہیں سے یہ خیال آیا کہ شاید حالات بدلے اور ااب تو اسی دن کا انتظار کرہا ہوں کہ کب حالات بدلیں گے اور کب ہمارے یہاں بھی پبلک ایریا میں یہ لکھا جائے کہ “spread love and peace”اور کب ہمارے ہاں یہ چیزیں چوری نہ ہو.
لیکن فلحال ہم اخلاق اور علم کے نیچے درجے سے گزر رہے ہیں۔اور یہ ہماری علمی اور اخلاقی تنزلی ہے.
Well said Mr. Aurangzeb Shahzad i would like to add one more thing that we are irresponsible nation .. (Ehsas e zemadari nam ka koi chez hona chahiye) Ek Azeem qaoum banny k lie…