سی ای پی سی اور پاک آرمی

یہ عظیم الشان پروجیکٹ ہمارے “دوست نما دشمنوں” اور” ازلی دشمنوں” کی آنکھوں میں کانٹا ہے جسے نکالنے کے لیے وہ اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے اور کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔۔ یہاں میں ان دوست دشمنوں کا نام نہیں لے رہا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ وہ کون ہیں۔ ویسے بھی پاک چین دوستی ان کو دیمک کی طرح کھائے جا رہی تھی۔ اب چینا پاکستان اکنامک کوریڈور کا منصوبہ ان کی بد دیانتی اور تعصب کے زخموں پر نمک پاشی کرنے لگا ہے اور وہ تلملا اٹھے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کی درندگی کا آغاز، بلوچستان اور کے پی کے میں دہشت گردی میں اضافہ ، الطاف حسین اور محمود خان اچکزئی کی ہرزہ سرائی اور مشرقی سرحد پر بھارت اور مغربی سرحد پر افغانوں کی دراندازی یہ سب اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے ٹریلرز ہیں۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ امریکہ کے اشارے پر بھارت اور افغانستان کی طرف سے جارحیت ہو سکتی ہے تاکہ سی پی ای سی کا منصوبہ ناکام رہے یا کم از کم تعطل کا شکار ہو۔ امریکہ چین کو بآسانی گوادر پورٹ پہنچنے سے روکنے کیلیے اپنے سارے ہتھکنڈے کام میں لائے گا۔ اگرچہ بھارت بڑی جنگ لڑنے کی حماقت نہیں کرسکتی البتہ ہمیں اندرونی اور سرحدی جھڑپوں میں الجھانے کی کوشش میں ” را” کو پوری طرح حرکت میں لائے گی۔ امریکہ بہادر کی طرف سے پاکستان سے “ڈُو مور” کا مطالبہ ہنوز جاری ہے اور حقانی نٹ ورک کو سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے اور اس کے خلاف سخت اقدام کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ اشرف غنی اور مودی سرکار کی دوستی برادری میں بدل گئی ہے۔ ان حالات میں پاکستانی قیادت کو انتہائی ہوشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہمارے دشمن صرف اور صرف ہماری بہادر فوج اور اس کے غیرتمند سپہ سالار جنرل راحیل شریف سے خوفزدہ ہیں۔ جب تک راحیل شریف کے ہاتھ میں پاک فوج کا کمان رہے گا، ہمارے بزدل دشمن ہم پر کھل کر وار نہیں کرسکتے اور cpecسی پی ای سی منصوبے کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے۔ لیکن صاحب موصوف نے کھل کر ریٹائرمنٹ لینے کی بات کی ہے۔ لہذا ان کے ریٹائرمنٹ تک دشمنوں کے یہ ٹریلرز جاری رہیں گے۔ اس کے بعد وہ بڑے اقدام کرسکتے ہیں۔ ہمارے ملک کی عوام کی خاموش اکثریت جو انتہائی حد تک محب وطن بھی ہے کی دلی خوہش ہے کہ ملک سے دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کے خاتمے تک بلکہ اس عظیم ترقیاتی منصوبے کی تکمیل تک جرنل رحیل شریف کو پاک فوج کا سربراہ رہنا چاہیے۔ اس ملک اور اس کے غریب عوام کی خاطر جناب وزیر اعظم پاکستان،نواز شریف صاحب جرنل راحیل صاحب کو مجبور کریں کہ وہ ملازمت میں توسیع قبول کریں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ نواز کے کچھ مشیروں اور وزیروں کو جنرل راحیل کی ملازمت میں توسیع ہر گز پسند نہیں آئے گی،نیز حزب اختلاف کے کرپٹ سیاسی لیڈرز بھی ان کے ہمنوا ہوں گے اور کوشش کریں گے کہ راحیل صاحب گھر لوٹیں تاکہ وہ اپنی من مانی اور بدعنوانی میں آزاد ہوں۔۔ اسی طرح آمریکہ، بھارت اور ان کا بین الاقوامی ٹولہ بھی جنرل راحیل کی ملازمت میں اکسٹنشن کے حق میں نہیں ہوں گے اور ان کو فارغ کرانے کی اپنی حد تک سعی کریں گے۔ جناب نوازشریف کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ان کو پاکستان اور اسکی عوام عزیز ہیں یا ان کے چند کرپٹ سیاسی یاروں اور مودی سرکار کی خوشی منظور ہے؟ دہشت گردی کے ناسور کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور سی پی ای سی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کا کام ہماری پاک آرمی ہی جنرل راحیل صاحب کی قیادت میں انجام دے سکتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں جتنے میگا پروجیکٹس تکمیل کو پہنچے ہیں وہ ہمارے جنرلز کے ہاتھوں ہی انجام پائے ہیں۔ سی پی ای سی جیسے عظیم ترین منصوبے کی کامیابی کا انحصار بھی ہماری فوج پر ہے اور اس بات پر پاکستانی عوام کو یقین محکم ہے۔ عوام کو یہ حدشہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کی تحریک انصاف، پاکستان عوامی تحریک کی تحریک قصاص اور عوامی مسلم لیگ کی تحریک نجات جن کا بیک وقت آغاز ہوچکا ہے کو ناکام بنانے کی کوشش میں مسلم لیگ نون بھی دشمنوں سے ہاتھ ملا سکتی ہے۔ نواز مخالف تحاریک کے لیڈروں نے عرصے سے ان کو مودی کا دوست اور سکیورٹی تھریٹ قرار دے رہے ہیں۔ علامہ قادری نے اپنی کل کی تقریر میں مردان اور پشاور دھماکوں کی ذمے داری نواز حکومت پر ڈال دی ہے۔ نواز شریف کو اس وقت کڑا امتحان درپیش ہے۔ دیکھتے ہیں کہ ان کا سیاسی تجربہ کتنا پختہ ہوگیا ہوگاکہ وہ اندرونی اختلافات اور الزامات کے طوفان اور بیرونی سازشوں کے دلدل سے پاکستان اور اپنی حکومت کو سلامت باہر نکال سکیں؟]]>

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *