چترال کی ثقافت کا جنازہ
عنوان بہت سخت الفاظ میں ہے لیکن لکھنے والے کی مجبوری ہے۔ اس سے نرم الفاظ میں مفہوم کا اداہونا بہت مشکل تھا۔چترال کی ثقافت کن چیزوں سے عبارت تھی۔ گھر وں میں قالین اور اونی پٹی کی کھڈیاں تھیں جو بتد ریج ختم ہورہی ہیں ۔بائے بٹتں ،راتھینی اور کھوار ختان کے ناموں سے مخصوص کمرہ ہوتا تھا۔جو بیک وقت باورچی خانہ ،بیٹھک اور خواب گاہ کاکام دیتا تھا ۔پہننے کے لئے کھون کے نام سے جوتے ،شوقہ کے نام سے پوشاک کا رواج تھا۔
دلہن کے لئے تخت ،سُربند اور سورُو کا دستور تھا ۔شُوشپ،سناباچی ، خلمندی کے نام سے مخصوص پکوان ہوا کرتے تھے۔ گلہ بانی ، کھیتی باڑی اور شادی بیاہ کی رسومات تھیں۔سال کے موسموں میں بہت سے تہوار مثلا پھیندک ،اشٹون ،بی ینسیک، سال غیر یک ، جشتان ڈیکیک وغیرہ ہوا کر تے تھے۔ آپ گن لیں تو شمار نہیں کرسکیں گے ۔شکار پر جاتے وقت دیک جوش اور شکار سے واپسی پر شوماش کی رسم تھی ۔جن نوجوانوں کی عمر 30 سال سے کم ہیں ۔ان کو ایسی رسموں کا کوئی علم نہیں ۔
یہ چترال کی ثقافت کا جنازہ نہیں تو کیا ہے ؟ آپ پولوگراونڈ چترال میں واقع عجائب گھر کا دورہ کریں توآپ کو یہ جان کر افسوس ہوتا ہے کہ عجائب گھر کی نادر اشیاء (آرٹی فیکٹس) کے نام غلط لکھے ہوئے ہیں مثلا باغیر کے سامنے تھا لو اور تھالو کے سامنے باغیر لکھا ہواہے ۔گویا نئی نسل کو عجائب گھر میں چترال کی ثقافت کا درست نمونہ نہیں ملتا۔ ہماری مسجد یں لکڑی کے نقش ونگار والے ستونوں اور محرابوں سے مزین ہوتی تھیں۔ جدید فیشن کے متوالوں نے ان کو شہید کرکے تمام لکڑی کباڑمیں فروخت کردی۔ اب جستی چادر وں یا آرسی سی ڈھانچوں والی مسجد یں بن چکی ہیں۔ جو عبادت خانے تو ہیں مگر چترال کے مخصوص ثقافت کی نمائندگی نہیں کرتے ۔ چترال کی ثقافت میں گیتوں کا ذخیرہ اور موسیقی کا لوک ورثہ بھی مظلوم ہے ۔ریڈ یو پاکستان ، ایف ایم 97اور دیگر ریڈیو چینل آگئے۔ بازار میں کیسٹ کی دکانوں کا نیا فیشن آگیا ۔اس فیشن نے کلیز کے جریکین کو دف کی جگہ متعارف کرایا۔ فرانس ، سوئٹزرلینڈ ،جرمنی ،تاجکستان اور جاپان سے آنے والے سیاح پوچھتے ہیں کہ کھوار ثقافت کتنی قدیم ہے ۔ہم اپنی معلومات کی بنیاد پر دعوی کرتے ہیں کہ 3ہزار سال پُرانی ہے۔ مہمان کہتا ہے جیری کین یورپ میں شراب کے لئے بنایا گیا ۔اس کی عمر وہاں400سال ہے۔ یہاں 1927ء سے پہلے جیری کین نہیں آیا تھا۔ جیری کین کے بغیر تمہاری ثقافت 3ہزار سالوں سے کس طرح پروان چڑھ رہی تھی ۔ہم سوچتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ جیری کین 1927ء میں قلعے کے اندر آیا تھا ۔ عوام کے ہاتھوں میں 1960ء تک جیری کین نہیں پہنچا تھا۔ یو ں اس آلہ موسیقی کی عمر 55سال سے زیادہ نہیں بنتی ۔
ہم حیران ہوتے ہیں کہ ہمارے آباؤاجداد اس اہم آلہ موسیقی کے بغیر کس طرح گاتے تھے۔ ہمیں ندامت ہوتی ہے کہ ہم نے اپنی ثقافت کو کس طرح مزاق کا نشانا بنا یا ہوا ہے ؟ ایک محفل موسیقی میں شہر کے لوگ بیٹھے تھے ۔ایک بڑا فنکار کاتعارف ہو ا۔اس نے جو گانا گایا وہ ہندوستان کی فلمی گیت کاچربہ تھا۔نامور فنکار نے دوسرا گانا گایا ۔ وہ پشتو گیت کا چربہ تھا۔مایہ ناز فنکار نے تیسرا گاناگایا وہ پاکستانی فلمی گیت کا چربہ تھا۔ہماری آنکھیں شرم کے مارے جھک گئیں۔ہمت کرکے ایک دوست کے ذریعے مرزا محمد سیر کے کلام” یارمن ہمیں” کی فرمائش کروائی۔نامور فنکار نے عنایت اللہ چشتی صابری کا کلام یار من ہمیں کی دھن میں سنایا۔ ہمارا حلق خشک ہوا۔زبان پر مہر لگ گئی۔ ہم مرزا محمد سیر کا تعارف بھی نہ کراسکے۔ ریڈیوپاکستان اور ایف ایم 97سے نشر ہونے والے 80 فیصد گانے کسی وزن ،بحر اور دُھن یا ترنم میں نہیں ہیں۔ عام بول چال کے جملوں کو آہنگ اور ترنم کے بغیر گایا جاتا ہے۔ جن گانوں کا ترنم ہے، جن گانوں کی کوئی دھن ہے وہ پشتو، اردو اورپنجابی فلمی گیتوں کاچربہ اور سرقہ ہے۔ ایف ایم 97-پر 95فیصد گانے ہماری ثقافت کا جنازہ نکالتے ہیں۔اب ری مکس اور آرکسٹرانے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ اچھے بُرے کی تمیز ختم ہوگئی ہے۔ اصل اور نقل کا فرق مٹ گیا ہے۔
یہ چترال کی ثقافت کا جنازہ نہیں توکیا ہے ؟بقول غالب: ہر بو لہوس نے حسن پرستی شعار کی اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی ہمارے چترال کے بعض فنکاروں کا خیال ہے کہ ترقی کا زمانہ ہے آگے بڑھنا چاہیئے۔ قدیم ثقافت کے ساتھ چمٹے رہنا عقلمندی نہیں۔ بعض فنکاروں کا خیال ہے کہ کھوار ثقافت کو باہر کے لوگ نہیں سمجھتے ۔اس لئے چربہ اور سرقہ لانا ضروری ہے۔میرا سوال یہ ہے کہ پھر آپ اردو، پنجابی اور پشتو میں گائیں ۔کھوار میں کیوں گاتے ہیں؟یہ آج کا اہم موضوع ہے۔ ہمیں دوباتوں پر غور کرنا چاہئیے ۔پہلی بات یہ ہے کہ ریڈیو چینلوں پر جوچربہ اور سرقہ شدہ مواد آیا ہے اس کو ضائع کیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ استاد میر گل اور ان کے ہم عصر شعراء اور فنکار وں کو معیار بنا کر اُن کی تقلید کی جائے۔ وہ لوگ کھوار موسیقی اور چترال کی ثقافت کے زندہ امین ہیں۔ ہمارا موجودہ دور ثقافتی بربادی اور تباہی کا دور ہے۔ چترال کی ثقافت کا جنازہ ہمارے کندھوں پر ہے اور ہم بلا سمجھے بوجھے اس کواٹھا ئے پھر رہے ہیں۔