محمد جاوید حیات
شکیب کو افسردگی اس بات پہ نہ تھی کہ اس کا گھر بار لٹا تھا۔سارا گھر خوبصورت مکان،مہمان خانہ ،چمن،گھر کے اندر کے سارے سامان سیلاب نے تباہ کردیا تھا۔اس کو افسردگی اس بات پہ تھی کہ اس کی دنیا لٹ گئی تھی۔اس کی بیوی اور اس کا چاند سیلاب میں بہہ گئے تھے۔اس کا جگر چھلنی تھا اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا تھا۔لوگ اس کے مکان کے اوپر سے کیچڑ ہٹانے میں صبح سے شام تک مصروف رہتے اور وہ ایک کیچڑ الود پتھر پر گم سم بیٹھے رہتے۔اس کا چاند حسیب دوسری جماعت میں پڑھتا تھا۔
جب اس کا جنازہ نکالا گیا تو کسی نے اس کی قیمص کی جیب میں ہاتھ ڈالا اس وقت پورا مجمع چیخ اٹھا۔جب حسیب کی جیب سے پانج روپے کا نوٹ ایک (کھیلونا)کار کی ربڑ ٹائر اور ایک ٹوٹا ہوا ریوالور کاٹکڑا ملا۔کائنات کے اس پھول کی اس معصوم سی دنیا دیکھ کر مجمع تڑپ اٹھا۔سارے گاؤں میں ان چیزوں کا چرچا ہوا۔اور بچوں کی معصوم خوبصورت اور پاکیزہ دنیاؤں پر تبصرہ ہوا۔شکیب اس کی یادوں میں کم سم رہتا۔۔۔۔کبھی کہتا آقا!تیری عطا کی ہوئی نعمتوں کا شاید شکریہ ادا نہیں کیا۔تونے واپس لے کر آزمایا۔کبھی کہتا ۔۔۔۔۔۔۔’’یہ دنیا ہے‘‘اس جملے کے ساتھ ایک آہ بھی نکلتی۔۔۔۔شکیب ایک کھاتا پیتا کاروباری آدمی تھا۔پیسے تھے دولت تھی گاڑیاں تھیں۔اس نے محل نما گھر بنایا تھاگھر کے اندر ممکنہ عیاشیاں تھیں۔شکیب نے یہ’’دنیا‘‘سمجھ رکھا تھا۔دوست احبابہ ہوتے موج مستیاں ہوتیں۔اس نے زندگی کو صرف ’’رنگینی‘‘سمجھ رکھا تھا اور دنیا کو غضب کا ’’وفادار‘‘سمجھ رکھا تھا۔شکیب کی بیوی کو اس بات کا قلق تھا کہ اس کے گھر میں ناشکریاں ہوتی ہیں۔وہ تابعدار بہت تھی۔اس لئے شکیب کو بتاتے ہوئے ڈرتی۔قرآن پڑھتی تو اس کے آنسو گرتے۔نماز پڑھتی تو دیر تک سجدے میں روتی رہتی۔۔۔۔سیلاب آبھی گیا شکیب کی’’دنیا‘‘لٹ بھی گئی ۔وہ کیچڑ زدہ پتھر پر بیٹھ کر یہ سب کچھ سوچتا رہتا۔۔۔اچانک کدال بیلچہ سے کیچڑ ہٹانے والوں کو کوئی انوکھی چیز مل گئی۔سب نے کام چھوڑا اور توجہہ سے دیکھنے لگے۔یہ حسیب کی ہوم ورک کی کاپی تھی۔سکول میں چھٹیوں کے لئے ہوم ورک دیا گیا تھاحسیب کی کاپی کے درمیان پنسل رکھی ہوئی تھی۔شکیب کا بڑا بیٹا جو تیسری جماعت میں پڑھتا تھا چیخ کر کہا۔۔۔۔یہ حسیب کے ہوم ورک کی کاپی ہے۔کاپی کھولی گئی۔درمیان میں جو پنسل رکھی گئی تھی ۔اس کے آدھے صفحے پر لکھا ہوا تھا۔جملہ تھا۔۔۔’’اللہ ایک ہے‘‘ اس جملے سے حسیب کی انگلیوں کی خوشبو آرہی تھی۔۔۔شکیب نے کاپی سینے سے لگایا۔
اس کی آنکھیں برس رہی تھیں۔اس کو اس کی گذری ہوئی زندگی یاد آگئی۔اس نے دنیا کو رنگین سمجھ رکھا تھا۔سب کچھ سمجھ رکھا تھا،اس نے کہا۔۔۔۔اے اللہ میں پچھتا رہا ہوں۔۔۔میرے آقا تو نے مجھ پر اولاد اور مال کی آزمائش لایا۔مولیٰ تیرا امتحان ہے۔مجھے قبول ہے۔میں تیرا نام لیوا ہوں۔۔۔آقا تیرے حبیبؐ نے اس دنیا کی حیثیت کومچھر کے پَر کے برابر قرار دیا اور فرمایا کہ اس کے برابر بھی نہیں ہے۔اس کی حیثیت واقعی اب واضح ہوگئی۔آقا!حسیب کے ہوم ورک کی کاپی اس کی پنسل اس کی جیب میں موجود ٹائر اور پانج روپے کا نوٹ’’دنیا‘‘ہے میرا کاروبار ’’دنیا‘‘نہیں ہے،میرا بنک اکاونٹ’’دنیا ‘‘نہیں ہے۔حسیب کی ایک ’’مسکراہٹ‘‘’’دنیا‘‘ تھی۔آقا یہ مال ودولت تیری امانت ہیں۔یہ لوگوں کی امانت ہیں میں لوٹا دونگا۔آقا حسیب کے حصے کی دولت لٹا دونگا۔مجبوروں ،بے چاروں،بے بسوں اور بے سہاروں کا سہارا بنوں گا۔اپنے حبیب ؐ کے صدقے مجھے موقع دے۔شکیب چادر اوڑھ کے کسی مجبور کے دروازے پر کھڑا ہوتا چادر کے نیچے پیسے ہوتے۔وہ یہ پیسے اس ہاتھ میں رکھتا اور کہتا۔۔۔۔’’یہ دنیا ہے‘‘اب اس کو دنیا کی حقیقت کا یقین ہوچلا تھا۔اس کے دل کے نہان خانے سے آواز آتی۔’’یہ دنیا ہے‘‘اگر انسان دوسرے کے کام نہ آئے تو وہ اس کی حقیقت نہیں سمجھ پائے گا۔