تحریر: خیرالدین شادانی
اس دنیا میں جہاں لیڈرشپ کو منافع، سیاسی فائدہ اور قلیل مدتی نتائج سے ناپا جاتا ہے، وہاں یہ بات اکثر فراموش کر دی جاتی ہے کہ قیادت کبھی اخلاقی ذمہ داری بھی ہوا کرتی تھی۔ چودہ سو سال پہلے، علی ابن ابی طالب نے ایک ایسا خط لکھا جو تاریخ میں قیادت کی اخلاقی بنیادوں پر مبنی سب سے زیادہ متاثر کن اور قابلِ عمل دستاویز کے طور پر جانا جاتا ہے۔
یہ خط، جو اُنہوں نے اپنے گورنر مالک اشتر کو مصر کی حکومت سونپتے وقت لکھا، محض ہدایات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک مکمل قیادتی منشور تھا۔ اس میں انصاف، دیانتداری، جوابدہی اور خدمت کا وہ جامع ماڈل پیش کیا گیا ہے جو آج کی بزنس اور پالیسی دنیا کے لیے ایک مکمل ضابطہ اخلاق بن سکتا ہے۔
امام علی نے انصاف کو کبھی ثانوی یا وقتی نعرہ نہیں بنایا۔ وہ لکھتے ہیں: \”انصاف وہ ستون ہے جس پر دنیا قائم ہے۔\” وہ مالک کو ہدایت کرتے ہیں کہ سب شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے، چاہے وہ امیر ہوں یا غریب، مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ یہ پیغام صرف عدلیہ یا ٹیکس نظام تک محدود نہیں، بلکہ ایک مکمل معاشی مساوات اور انسانی وقار کا تقاضا کرتا ہے۔ آج اگر ریاستیں اور کمپنیاں انصاف کو محض پی آر ٹول کے بجائے انفراسٹرکچر سمجھیں تو شاید نظامِ حکومت اور کارپوریٹ کلچر دونوں کی اصلاح ممکن ہو۔
امام علی مالک کو خبردار کرتے ہیں کہ لوگوں کی تقرری دوستی، رشتہ داری یا سیاسی وفاداری کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ دیانت، قابلیت اور خدمت کے جذبے پر کی جائے۔ وہ کہتے ہیں: افسران پر نظر رکھو، ان کا احتساب کرو، اور اگر بددیانتی ثابت ہو تو معزول کرو۔ یہ عہدِ حاضر میں گویا گورننس کا اصولی ماڈل ہے۔ آج کی دنیا میں جہاں اقربا پروری اور کرپشن عام ہیں، امام علی کی یہ ہدایات ادارہ جاتی اصلاحات کا منبع بن سکتی ہیں۔
اس خط کا سب سے حیران کن پہلو اس کا لہجہ ہے۔ علی مالک کو یہ نہیں کہتے کہ لوگوں پر حکومت کرو، بلکہ انہیں انسانیت کے ساتھ دیکھو۔ وہ لکھتے ہیں: \”لوگ یا تو تمہارے دینی بھائی ہیں یا انسانیت میں تمہارے برابر۔\” یہ اصول طاقت کو خدمت میں بدل دیتا ہے۔ آج جب قیادت عموماً اشرافیہ کے اندر محدود ہو چکی ہے، امام علی کا تصور قیادت کو ایک عوامی امانت بناتا ہے جس میں سب سے پہلے جوابدہی قائد کی ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے: کیا آج کے سی ای اوز، سیاستدان، یا بیوروکریٹس امام علی کے اس خط سے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟ جواب ہے: بہت کچھ۔ آج جب دنیا ، ماحولیاتی بحران، اور اخلاقی زوال سے دوچار ہے، تو ایسی قیادت درکار ہے جو اقدار پر کھڑی ہو۔ امام علی کا ماڈل نہ تو کسی ایک مذہب سے منسلک ہے نہ کسی خاص قوم سے۔ یہ ایک عالمی ضابطہ ہے جو کہتا ہے کہ طاقت خدمت ہے، اختیار ذمہ داری ہے، اور قیادت اخلاقی قوت کا نام ہے۔ جو ادارے صرف کامیابی نہیں بلکہ اثر چاہتے ہیں، ان کے لیے یہ پیغام وقت کی سب سے اہم پکار ہے۔
خیرالدین شادانی ایک فنانشل مارکیٹ ریسرچر اور زیرِ طباعت کتاب علی کا ضابطہ: نہج البلاغہ سے جدید حکمرانی تک کے مصنف ہیں۔

