داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
عالمی طاقت کے کسی سر براہ کا کسی بھی خطے یا کسی ملک کا دورہ واقعات کے لحاظ سے جتنی اہمیت رکھتا ہے علامتی لحاظ سے واقعات سے کئی گنا زیادہ اہم ہوتا ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ دورہ سعودی عرب اور خلیج ایک ماہ پہلے تاریخ اور تفصیلات کے ساتھ طے ہوا تھا یہ بھی طے شدہ تھا کہ محمد بن سلمان کے ساتھ ملا قات میں دونوں رہنماوں کو قھوہ پیش کیا گیا تو امریکی صدر قھوہ کی پیالی ہاتھ میں ضرور لے لیگا مگر ایک گھونٹ بھی نہیں پئیے گا یہ بھی طے ہوا تھا کہ امریکی صدر سعودی ولی عہد کے ساتھ مخلوط مجلسوں میں شرکت کرے گا، سعودی خواتین کے ساتھ ہاتھ ملائے گا اور ہلکی پھلکی موسیقی کا لطف اٹھاتے ہوئے رقص بھی کر ے گا
ایسے دوروں میں کوئی بھی کام منصوبہ بندی کے بغیر نہیں ہوتا قطری حکمران شیخ حماد بن خلیفہ کی طرف سے اربوں ڈالر مالیت کے ہوائی جہاز کا تحفہ بھی بیٹھے بٹھائے درمیان میں نہیں آیا، اس تحفے کی منصوبہ بندی بھی جنوری 2025ء میں امریکی صدر کے عہدہ سنبھالتے ہی ہو چکی تھی یہ بھی نئی پیش رفت نہیں تھی کوئی سر پرائز نہیں تھا بعض جذباتی لوگ اس دورے کو حا لیہ پاک بھارت جنگ کے حیران کن نتائج کے ساتھ جوڑتے ہیں جو سراسر غلط ہے امریکی صدر کے دورے کا تعلق عرب اور خلیجی ممالک کی تازہ ترین صورت حال سے ہے دو بڑے واقعات اس دورے کے محرک ہیں
پہلا واقعہ غزہ کی جنگ کا طول پکڑنا ہے 7ستمبر 2023کو غزہ کی جنگ چھڑنے کے بعد ڈیمو کریٹک پارٹی کو اندازہ تھا کہ حماس 4ماہ بھی جنگ برداشت نہیں کر سکیگی زیادہ سے زیادہ اس میں 6مہینے لگ سکتے ہیں پھرغزہ ہمارا ہو گا لیکن ڈیڑھ سال گذر گئے غزہ میں 80ہزار فلسطینی مارے گئے اتنے ہی زخمی اور معذور ہوئے، 200مساجد مسمار ہوئے 50بڑے ہسپتال اور 120تعلیمی ادارے تباہ ہوئے، سڑکوں کا نظام، پانی کی فراہمی کا نظام بر باد ہوا غزہ کی ہنستی بستی آبادی کھنڈرات میں تبدیل ہوئی مگر حماس کی طرف سے مزا حمت اب بھی جا ری ہے اس مزا حمت کو کچلنے کے لئے لبنان میں حز ب اللہ کے سر براہ حسن نصر اللہ کو شہید کیا گیا شام کے منتخب صدر بشا رالاسد کا تختہ الٹ دیا گیا پھر بھی حما س کی مزا حمت میں کمی نہیں آئی دسمبر 2024میں شام پر امریکی قبضے کے بعد امریکہ میں ری پبلکن پارٹی کی قیا دت میں قائم ہونے والی نئی حکومت نے غزہ پر قبضے کے لئے سعودی عرب اورخلیجی حکومتوں کی طرف سے امریکہ کے ساتھ دوستی اور امریکی پا لیسیوں کی حما یت کے غیر متر لزل رویے کو میدان جنگ میں ازما نے کا منصو بہ بنایا اور صدر ٹرمپ کا حالیہ دورہ اس سلسلے کا پہلا قدم ہے سعودی عرب اور خلیجی ممالک نے شام کی جنگ میں امریکہ کی بھر پور مدد کی تھی، غزہ کی جنگ میں بھی امریکہ اورا سرائیل کو عربوں کی بھر پور حما یت حا صل ہے صدر ٹر مپ اس حما یت کا فائدہ اٹھا کر جون 2020 کا اپنا منصو بہ روبہ عمل لا نا چاہتے ہیں اس منصو بے کے تحت سعودی ولی عہد کے دو جا نی دوست اور قریبی ساتھی جیراڈ کشنر اور ایرک ٹرمپ نے سعودی ولی عہد کی وساطت سے عربوں کو ایک تجویز پرمتفق کیا تھا
بحرین میں جمع ہوکر عرب ریاستوں نے اس سلسلے میں ایک معا ہدہ پر دستخط کئے تھے جس کا نام ابراہیمی معا ہدہ رکھا گیا تھا معا ہدے میں لکھا گیا ہے کہ عیسائی، یہو دی اور مسلمان سب حضرت ابراہیم ؑ کے لائے ہوئے مذہب پر متفق ہو کر مشرق وسطیٰ میں امن اور ترقی کی ضما نت دینگے عر بوں کی طرف سے اسرائیل کے خلا ف کوئی مزا حمت نہیں ہو گی، اس معا ہدے کے برو کر صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور ٹرمپ کے بیٹے ایرک تھے دونوں محمد بن سلمان کے جا نی دوست ہیں مئی 2025میں صدر ٹرمپ نے سعودی عرب اور خلیجی مما لک کو بتا یا کہ شام پر ہمارا قبضہ ہو گیا اب تمہاری طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا با ضا بطہ اعلا ن سامنے آنا چاہئیے یمن اور ایران کی حکومتوں کا تختہ ہم ملکر الٹ دینگے تو اسرائیل کے لئے امن، سلا متی اور ترقی کی راہ میں کوئی رکا وٹ نہیں رہے گی یہ امریکی حکومت کا منصو بہ ہے جہاں حکومت بدلنے کے ساتھ ریا ست کی پا لیسی نہیں بدلتی اور صدر ٹرمپ پر لا زم ہے کہ وہ جو بائیڈن کی پا لیسیوں کو آگے بڑھا ئیں
اپنے گذشتہ دور حکومت کے ادھورے منصو بوں کو مکمل کریں امریکی ریا ست فلسطینیوں کو کچلنے اور اسرائیل کی راہ میں حا ئل رکا وٹوں کو ختم کرنے کے لئے عر بوں کی حما یت حا صل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اور یہ زمینی حقیقت ہے کہ سعودی عرب اور مصر کے علا وہ خلیج کی چار بڑی ریا ستوں میں امریکہ کے فو جی اڈے مو جود ہیں امریکہ کا بحری بیڑہ قطر کی بندر گاہ میں 35سالوں سے لنگر انداز ہے اور یہ امریکی سنٹرل کمانڈ کا ہیڈ کوار ٹر بھی ہے ہم دور دیس کے رہنے والے غزہ کے نا م پر مارچ، ریلی اور مظا ہرے کر تے ہوئے اپنا جذبہ ایما نی ظا ہر کرتے ہیں، عرب دنیا میں ایسا کوئی جذبہ دیکھنے میں نہیں آتا وہ دن دور نہیں جب کسی سہا نی شام کو خبر آئیگی کہ عرب مما لک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے
کہا آشوبِ قیا مت سے یہ کیا کم ہے
گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا

