Inayatullah Faizi

پینڈورا کا صندوق

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
پینڈورا دیومالائی روایات اور توہمات میں ایک یونانی داستان کی ہیروئین کا نام ہے یہ نام یونانی سے انگریزی میں آیا پھر انگریزی سے ہماری زبانوں میں آیا جب پے در پےآفتیں اور مصائب آنے لگیں تو کہتے ہیں ’’ پینڈ ورا باکس‘‘ کھل گیا ہے

انگریزی میں یہ ترکیب مصائب وا ٓلا م آفات وبلیات کے لئے استعمال ہوتا ہے سیاست اور سفارت کاری میں یہ ترکیب زیادہ استعمال ہوتی ہے کسی کو نرم الفاظ میں دھمکی دے کر خبردار کرنا ہو کہا جاتا ہے باز آجاو ورنہ پینڈورا باکس کھل جائے گا پینڈو را باکس کی دھمکی کو سنکر مخالف فوراً اپنے ارادے سے باز آجاتا ہے اگر کسی بڑے واقعے کے تہہ در تہہ کر داروں کو بے نقاب کرنا ہو تو کہا جا تا ہے باز آجاو مجھے پینڈو را با کس کھولنے پر مجبور نہ کرو، اگر مخالف اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے با ز نہ آتا ہو تو کہا جاتا ہے کہ سدھر جاو ورنہ پینڈورا باکس کھل جائے گا پھر تم کسی کو منہ دکھا نے کے قابل نہیں رہو گے

چھ ہزار سال پہلے جن چیزوں کو آفت، بلا اور مصیبت کا نام دیا جا تا تھا ان چیزوں کو آج کل آڈیو اور ویڈیو لیک کا نام دیا جاتا ہے سکینڈ ل بھی کہا جاتا ہے اس لئے ہزاروں سال پرانی داستان کی ہیروئین کو آج بھی حوالہ اور استعارہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے قدیم، یونان میں جب توہمات کا دور تھا لوگ دیوتاوں کی طاقت پر یقین رکھتے تھے اُس زمانے کی داستانوں اور کہانیوں کا مرکزی خیال دیوتاوں کے گرد گھومتا تھا ایسی ہی ایک داستان میں پینڈورا نام کی ایک حسینہ ہوتی ہے حسینہ ایسی ہوتی ہے جس کو جون ایلیا نے اپنی شاعری میں قتالہ کا نام دیا ہے پینڈورا کے حسن و جمال نے دیوتاوں کو حیراں کر دیا ہے سارے دیوتا اُس کی زلفوں کے ایسر بنے ہوئے ہیں اور اس کو حاصل کرنے لئے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں دوسرے دیوتاوں کو مات دینے کے لئے زیوس کی طرف سے پرومیتھیس کو ایک صندوق ملتا ہے وہ صندوق کا تحفہ لاکر پینڈو را کو دیتا اور کہتا ہے کہ یہ پُر اسرار صندوق ہے پوری دنیا میں جس طرح تمہارے حسن کا جواب نہیں اس طرح اس صندوق کی مثال نہیں جب تک میں نہ کہوں اس صندوق کو نہ کھولو، پینڈورا مان لیتی ہے اور صندوق کی حفاظت پر غلاموں اور کنیزوں کو مقرر کرتی ہے، یہ بات سب کے لئے تجسس کی باعث بنتی ہے کہ صندوق میں کیا ہے خود پینڈورا بھی ہر وقت سوچتی ہے کہ اس میں کیا ہے، زرو جوا ہر کا انبار ہے، دولت کا ڈھیر ہے نایاب زیورات ہیں یا میرے من کی کوئی مراد ہے

اس تجسس کی وجہ سے پینڈورا کے صبر کا پیما نہ لبریز ہوتا ہے اور وہ صندوق کو کھول دیتی ہے صندوق کھلتے ہی کیڑوں مکوڑوں کی شکل میں آٖفات بلائیں اور مصبیتیں باہر آجاتی ہیں جب لاکھوں کی تعداد میں آفتیں باہر آتی ہیں تو پورا ماحول غموں سے گرد آلود ہو جا تا ہے ہر طرف رونا دھونا شروع ہو جاتا ہے پینڈورا خود بیمار پڑجاتی ہے اور صندوق کو بند کرنے کا حکم دیتی ہے صندوق بند ہوجاتا ہے لیکن آفتیں ختم نہیں ہوتیں مصیبت کی اس گھڑی میں دیوتا آجاتا ہے پینڈورا سے کہتا ہے تم نے میری بات نہیں مانی اب صندوق مجھے دکھاو، جب صندوق لایا جاتا ہے تو دیوتا کہتا ہے اپنے کان کے قریب لے جاو اور سنو کیسی آواز آرہی ہے پینڈورا کان لگا کر آواز کو سنتی ہے اور کہتی ہے کہ مکھی بھنبھنا رہی ہے دیوتا کہتا ہے صندوق کھولو صندوق کھلتے ہی مکھی باہر آجاتی ہے دیوتا کہتا ہے اس کانا م اُمید ہے چنانچہ امید کے نمودار ہوتے ہی پینڈورا تندرست ہوجاتی ہے

آج کل پا کستانی قوم نے پینڈورا کا صندوق کھول کر خود کر مصیبتوں میں گرفتار کروا دیا ہے ابھی تک قوم نے امید کی مکھی کو قید میں رکھا ہوا ہے امید کی مکھی باہر آئیگی تو آفتیں ختم ہو جا ئینگی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest