Inayatullah Faizi

ریکارڈ کی دستیابی

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
خیبر پختونخوا حکومت کا یہ فیصلہ بیحد خو ش آئند ہے کہ ہمارے صوبے کا پرا نا ریکارڈ عوام کے لئے کھلے عام دستیاب ہوگا اور مرحلہ وار پر و گرام کے تحت قدیم زما نے کی محفوظ دستا ویزات تک عوام کو رسائی دی جائے گی اعلیٰ تعلیم اور لائبریریوں کے محکمے کے وزیر کا مران بنگش نے ار کائیوز لائبریری کے دورے کے مو قع پر اس بات کا اعلا ن کر کے تحقیق سے دلچسپی رکھنے والے دانشوروں کے ساتھ اخبارات کے قارئین، اساتذہ، وکلا، صحا فیوں اور عوامی نما ئیندوں کا بڑا مسئلہ حل کر دیا انہوں نے ما تحت افیسروں پر زور دیا کہ شہر کے مختلف علا قوں میں پبلک لائبریریوں کا جا ل بچھا یا جائے تا کہ نئی نسل کا تعلق کتاب کے ساتھ جوڑنے میں سہولت اور آسانی ہو

ارکائیوز لائبریری پشاور کے ڈائریکٹر ظاہراللہ خان نے اپنی بریفنگ میں صو بائی وزیر کو بتایا کہ محفوظ دستا ویزات کا 25فیصد حصہ کمپیو ٹرائز ہو چکا ہے اور ڈیجیٹلائزیشن پر کا م جا ری ہے یہ جدید یت کی طرف ایک اہم قدم ہے صو بائی وزیر کے علم میں یہ بات بھی لائی گئی کہ صوبے کے 24اضلا ع میں پبلک لائبریریاں قائم کی گئی ہیں با قی اضلاع کے لئے منصو بہ زیر غور ہے کتاب اور لائبریری ، ریکارڈ اور قدیم دستا ویزات میں دلچسپی رکھنے والے قارئین اس بات سے واقف ہیں کہ صو بائی دارلحکو مت پشاور میں کتا بوں اور قدیم دستا ویزات کے محا فظ خا نوں کی اپنی تاریخ ہے جن احباب نے 1970کا پشاور دیکھا ہے ان کے علم میں ضرور ہو گا کہ صو بائی دارلحکو مت کی سات اہم لائبریریاں گذشتہ نصف صدی کے دوران بر بادی سے دو چار ہو گئیں ’’اب ڈھونڈ انہیں چراغ زیبا لیکر‘‘۔

شوکت مرحوم کے ساتھ اکثر اس موضوع پر گفتگو ہو تی تھی ان کو لائبریوں کی تباہی کا بیحد افسوس تھا ۔ شوکت اپنی بات میو نسپل لائبریری سے شروع کرتے تھے آگے جا کر نیشنل سنٹر کی لائبریری اور احمد فراز کی کُر سی کا ذکر ہو تا تھا اردو سائنس بورڈ کی لائبریری پر مولانا فضل معبود کی پگڑی کا ذکر خیر آتا تھا پھر امریکن سنٹر اور برٹش کونسل کی لائبریریوں کا نا م لیا جاتا تھا پھر کنٹونمنٹ بورڈ کی لائبریریوں پر دو آنسو بہائے جا تے تھے، پھر ڈوری کا سرا جا کر اُس لائبریری تک پہنچتا جو خود ختم ہو گئی مگر اپنی جگہ بہت بڑی لائبریری کا ورثہ چھوڑ گئی یہ پبلک لائبریری کہلا تی تھی اور کرایے کی عما رتوں میں گردش کر تی تھی

طارق منصور جلانی مر حو م اس کے کرتا دھر تا ہوا کر تے تھے مو جو دہ ار کائیو ز اینڈ پبلک لائبریری کا ما سٹر پلا ن انہوں نے بنا یا گورنمنٹ سے منظور کروایا یوں پرانے دستا ویزات کے ساتھ قدیم و جدید کتا بوں کو ایک چھت مہیا کیا اس چھت کے نیچے آڈ یٹو ریم اور کانفرنس روم بھی مہیا کئے گئے طارق منصور جلا نی کے بعد ظا ہر اللہ خان اور شاہ مراد خان نے اس پو دے کی آبیا ری کی اب یہ تنا ور اور پھلدار درخت بن کر پشاور کی پیشا نی کا جھومر بن چکا ہے اب مختلف اضلاع کے محا فظ خا نوں کا ریکارڈ بھی یہاں منتقل ہو چکا ہے ٹرائبل ریسرچ سیل کا ریکارڈ بھی یہاں محفوظ کیا گیا ہے

روایتی طریقے سے دستا ویزات کو پا نچ درجو ں میں تلاش کیا جا سکتا ہے محقق اپنے مو ضوع کے اعتبار سے رجسٹرڈ کے اندراجات کی چھان بین کرے گا رجسٹر میں ریک نمبر، بستہ نمبر، بنڈل نمبر اور فائل نمبر مل جائینگے مثال کے طور پر کا لا ڈھا کہ مہم ایک دستا ویز ہے اس کا انگریزی نام بلیک ما ونٹین اپریشن ہے یا چترال کی ریا ست میں جا نشینی کا مو ضوع لے لیں اس کا انگریزی نام چترال سکسیشن ہے آپ کو اپنے مو ضوع کی مطلو بہ ریکارڈ متعلقہ ریک کے اندر متعلقہ بستے کے متعلقہ بنڈل کی متعلقہ فائل میں مل جائے گا مگر اس فائل تک رسائی کے لئے آپ کو اپنے اسناد کے ساتھ حا کم مجا ز کو درخواست دے کر باقاعدہ منظوری لینی پڑیگی صو بائی حکومت نے اگر دستاویزات کو ’’ڈی کلا سیفائی‘‘ کر کے عوام کے لئے کھول دیا تو درخواست اور منظوری کے بغیر مطلو بہ دستا ویز تک آپ کی رسائی ہو گی یہ بہت مثبت اور علم دوست اقدام ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest