داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
آغوش خدمت سے قاری فدا صاحب نے فون پر بتایا کہ آپ کے نام ایک امانت کتاب میرے پاس آئی ہے۔ میں نے برجستہ پوچھا کتاب کا نام اور بھیجنے والے کا نام کیا ہے؟ کہنے لگے روشنی کے مسافر اور ضیاء چترالی، مجھے نام ہی سے رغبت ہو گئی روشنی اور ضیاء میں رعایت لفظی اور جلالت معنوی موجود ہے۔ کتاب ہاتھ آئی تو دل باغ باغ ہوا چترال کے نوجوان عالم دین اور مستند اہل قلم مولانا ضیاء الرحمن چترالی نے 208نو مسلم شخصیات کے سوانح شرح و بسط کے ساتھ جمع کر کے ان کی زندگی کے قبل از اسلام گوشوں کو طشت از بام کرنے کے بعد ان کے قبول اسلام کی کہانی اور مسلمان ہونے کے بعد اسلام کی دعوت کے لئے ان کی خدمات کا جائزہ ایمان افروز اور نصیحت آموز اسلوب میں پیش کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جن شخصیات کو اس کتاب کے لئے چنا گیا ہے وہ قبول اسلام سے پہلے اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں مقام رکھتے تھے اور شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے تھے۔ اگر اعداد شمار کی زبان میں بات کی جائے تو کتاب کے لئے چُنے ہوئے عظیم لوگوں میں 33شخصیات کا تعلق علمی دنیا سے ہے، 20شخصیات ایسی ہیں جن کو مسلمان ہونے سے پہلے سابق مذہب کے عالموں میں ممتاز مقام حاصل تھا، 24شخصیات کا تعلق فلمی دنیا سے تھا، 23ایسی شخصیات ہیں جن کو کھیلوں میں نمایاں درجہ حاصل تھا، 8ایسی شخصیات ہیں جو قبول اسلام سے پہلے اسلام دشمنی کے لئے بدنام تھے، 6شخصیات کا تعلق جرائم پیشہ افراد سے تھا، 4ممتاز صنعتکار اور تاجر ہیں، 9فوجی کمانڈر ہیں، ان میں 14نمایاں خواتین شامل ہیں، نو مسلم بچوں کی تعداد 19جبکہ نوجوانوں کی تعداد 9ہے، سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے 3اور سیاحت کے حوالے سے شہرت پانے والے 6افراد کو اس فہرست میں جگہ ملی ہے۔ ان میں 5ایسی شخصیات بھی ہیں جو اسلام کے عظیم داعی بن گئے، 7ایسی شخصیات کو لیا گیا ہے جنہیں کسی ایک شعبے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سے ہر ایک اپنی ذات میں انجمن ہے۔ ایسی ورسٹائل یا ہمہ جہت شخصیات میں ایک معذور نو مسلم رابڑٹ ڈبلیو ڈیو یلا کا نام سر فہرست آتا ہے۔
یہ اپاہچ امریکی عیسائی کلیسا کے زیر انتظام چلنے والے بوڑھوں کے مرکز یا اولڈ ہاؤس میں بستر پر پڑا تھا۔ ایک رات اس کو حضور نبی کریم ﷺکی زیارت ہوئی، جاگنے کے بعد اُس نے نیٹ پر سرچ کر کے اسلام کا مطالعہ کیا اور خود کلمہ سیکھ کر مسلمان ہوا۔ پھر اُس نے نیٹ پر ہی استاد ڈھونڈ کر قرآن پڑھنا شروع کیا، پھر ایک مصری مرتد نوجوان کو اس نے مسلمان کیا۔ مقامی مسجد کے امام مولانا نعمان نے اس کو ولی کامل کا نام دیا ہے۔ مرنے سے پہلے وہ وہیل چیئر پر مسجد بھی جانے لگا تھا۔ اس کی کہانی حیرت انگیز کہانی ہے۔ دوسرے امریکی نو مسلم ڈاکٹر جوزف لمبارٹ کا قصہ بھی عجیب ہے۔ اس کا اسلامی نام شیخ شاکر عبد الحق ہے، انہوں نے چرچ میں پرورش پائی۔ جب جورج واشنگٹن یونیورسٹی میں پروفیسر سید حسین نصر سے ان کی ملاقات ہوئی تو اسلام کا مطالعہ کیا اور مسلمان ہوا، پھر انہوں نے مغرب میں مسلمانوں کی بنیاد پرستی کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں کے خلاف دلائل و براہین کے ساتھ تحقیقی کتابیں لکھ کر اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کیا۔
ان میں سے ایک ایمان افروز کہانی مادام شہداء ڈیوٹ کی بھی ہے۔ اس کا مسیحی نام شنیڈا کو نور تھا، آئرلینڈ کی مشہور گلوکارہ (سنگر) تھی۔ 30سال کی عمر میں اس کے البم یورپ اور امریکہ میں مشہور ہوئے تھے۔ اُس نے آئرلینڈ کے مسلمان پاکستانی نژاد داعی شیخ عمر القادری کے سامنے اسلام قبول کیا۔ بقیہ زندگی اس نے حجاب پہن کر اسلام کی دعوت پھیلانے میں گزاری۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ہزاروں مسلمانوں نے جنازے میں شرکت کی، شیخ عمر نے خود نماز پڑھائی۔ ایسی ہی کہانی اطالوی فلم اسٹار مارشلا اینجلوکی ہے۔ مصر میں فلم کی شوٹنگ کے دوران اس نے مسلمانوں کو مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھا، وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ کوئی مرد آنکھ اٹھا کر اس کے بے پردہ جسم کو نہیں دیکھتا۔ اُس نے بات شروع کی تو سب نے بیٹی اور بہن کہہ کر اُس کو مخاطب کیا۔ واپس اٹلی جا کر وہ روم کے اسلامی مرکز میں گئی، خود بھی مسلمان ہوئی، اپنے غیر محرم دوست لڑکے کو بھی مسلمان کیا۔ مولوی نے اس کے دوست سے اس کا نکاح پڑھوایا، دوست کا نام عبد اللہ اور اس کا نام فاطمہ عبد اللہ رکھا۔
اس طرح ہر نو مسلم کی کہانی اپنے اندر عبرت، دعوت اور ایمانی طاقت کے کئی پہلو رکھتی ہے۔ نو مسلم شخصیات کے یہ حالات ملکی اخبارات اور رسائل و جرائد کے لئے الگ الگ کالم کی صورت میں لکھے گئے تھے۔ کتاب میں ان کو یکجا کرنے کے بعد ان میں ایسا باہمی ربط پیدا ہوگیا ہے کہ ایک ہی نشست میں ایک ہی کتاب کے لئے لکھے ہوئے مضامین کا گماں ہوتا ہے اور یہ مصنف مولانا ضیاء الرحمن چترالی کے فکر و فن اور زور قلم کا اعجاز ہے۔ کتاب کا ابتدائیہ 60صفحات میں مذہب کی ضرورت اور اہمیت کا بخوبی احاطہ کرتا ہے اور مذاہب عالم میں اسلام کی حقانیت و صداقت کا مدلل بیانیہ پیش کرتا ہے۔ دنیا بھر سے جو رپورٹیں آتی ہیں ان کی رو سے ہر سال کم و بیش 3000لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہیں، یہ کشش اور یہ طاقت کسی اور ہم عصر مذہب میں نہیں۔

