sher wali khn aseer

چترال کے حق میں پہلی بار پردرد آواز

شیرولی خان اسیر سماجی کارکن

ایوان بالا میں سنیٹر طلحہ محمود صاحب کی چترال کی بھر پور نمائیندگی کرتے ہوئے جاندار اور شاندار تقریر سننے کے بعد یہ اعتراف کرنا اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہوں کہ زندگی میں پہلی مرتبہ ملک عزیز کے کسی معزز ایوان میں عوام چترال کے حق میں ایک پرخلوص اور پردرد آواز اٹھی ہے.

موصوف نے اہالیان چترال کی زبون حالی کی تفصیل ایوان میں پیش کرکے ہمارے دل جیت لیے ہیں ۔چترال سے قومی اسمبلی کی نشست ہارنے کے باوجود طلحہ صاحب نے ایک غم خوار اور درمند نمائیندے کا کردار ادا کیا ۔ چترال کا تفصیلی دورہ کرنے کے بعد چترال کا آنکھوں دیکھا حال معزز ایوان کے سامنے پیش کیا۔ جس کے لیے ہم سنیٹر صاحب کے بے حد شکر گزار ہیں۔ ہماری امید ہے کہ یہ توانا آواز معزز ایوان میں گونجتی رہے گی اور سرکار وقت ہماری حالت زار کی طرف متوجہ ہو کر رہے گی۔

گزشتہ عام انتخابات کے دنوں طلحہ صاحب کی الیکشن مہم کے دوران جگہہ جگہہ منصوبوں کا آغاز اور غریبوں میں نقد رقم تقسیم کرنے کے خلاف بولنے والوں میں راقم الحروف بھی شامل تھا اور جسے ہم سیاسی رشوت کہتے تھے۔ لیکن الیکشن ہارنے کے بعد طلحہ محمود صاحب کا اپنا رفاہی اور فلاحی مشن جاری رکھنا اور چترال کے کونے کونے جاکر لوگوں سے دربارہ ملنا، ان کی حالت زار کا مشاہدہ کرنا، ان کی مدد کرنا اور پھر ملک کے معزز ایوان بالا کے سامنے چترال کی پسماندگی کی تفصیل پیش کرنا ان کی پرخلوص نمائیندگی کے ایسےناقابل تردید شواہد ہیں جو ہمارے سابقہ خیالات کو غلط ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اپنے حالیہ دورۂ چترال کے دوراں طلحہ محمود صاحب نے سڑکوں کی بدترین اور خطرناک حالت کا مقابلہ کرتے ہوئے اپر چترال کی سب سے دور افتادہ اور پسماندہ وادی یارخون میں بھی داخل ہونے کی زحمت کی ہیں اور وادی کے پہلے گاؤں بریپ تک تشریف لا کر لوگوں سے ملے اور ان کی مشکلات کا جائزہ لیا ہے۔ بریپ سے قرمبر جھیل تک کم و بیش 150 کلومیٹر لمبی وادی کے سب سے نظر انداز اور پسماندہ عوام ان کے منتظر تھے لیکن شاید موقع نہ ملا کہ بریپ گاوں سے واپس چلے گئے اور ہماری حالت زار نہ دیکھ پائے۔ اپر چترال کے تور کھو اور موڑکھو کے پسماندہ وادیوں کے لوگوں سے بھی ملے ہیں جو ضلعی ہیڈکوارٹر کے نسبتاً قریب ہیں۔ ایک دفعہ پھر لاکھوں ضرورت مندوں کی انفرادی مدد کرنے کے متعلق ہم نے سنا اور سوشل میڈیا کے توسط سے دیکھا بھی۔ جگہ جگہ اجتماعی فلاح و بہبود کے بہت سارے منصوبوں کا بھی انہوں نے آغاز کیا ہے۔ان سب کے لیے ہم محترم سنیٹر طلحہ محمود کے بے شکر گزار ہیں۔چترال کی جمہوری تاریخ اٹھا کر دیکھا جائے تو سوائے ذولفقار علی بھٹو کے کسی سیاسی لیڈر نے چترال کا نام نہیں لیا ہے۔

چترال کے اندر جو تعلیمی ترقی اور معاشی خوشحالی نظر آتی ہے یہ آغا خان کے اداروں کی چار پانج دھایوں کی مسلسل کاوش اور لواری ٹنل کھلنے کی بدولت ہے جس کا سہرہ ہزہائنس آغا خان چہارم اور مرحوم جنرل صدر پاکستان سید پرویز مشرف کے سر ہے جو فوجی ڈکٹیٹر تھے۔ ان سے پہلے جنرل ضیاء کی حکمرانی کے دوراں لواری سڑک کی کشادگی عمل آئی تھی جس سے لواری درےپر ہونے والے حادثات میں کمی آئی اور چترال سکاؤٹس کی تعداد بڑھانے سے چترالی جوانوں کو ملازمت کے مواقع ملے تھے۔ ہمارے مرحوم شہزادہ محی الدین نے بھی اپنی بساط کے مطابق ہماری اچھی نمائیندگی اور خدمت کی تھی۔ باقی کسی صاحب نے بھی حق نمائیندگی ادا نہیں کیا۔

پاکستان کی بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں نے مرکز اور صوبہ پختونخوا پر حکومت کی لیکن چترال کے عوام کی طرف کسی نے بھی توجہ نہیں دی۔ اگر آغا خان کے ادارے یہاں کام نہ کیے ہوتے تو آج بھی چترال ہزاروں سال پرانا نقشہ پیش کر رہا ہوتا۔چترال کے کونے کھدروں میں رابطہ سڑکوں ، پلوں اور چھوٹے چھوٹے بجلی گھروں کی تعمیر اور اسکولوں اور طبی مراکز کا قیام اے کے ڈی این کے مرہون منت ہیں۔چترال کی محرومیوں کی تفصیل بہت لمبی ہے جن کا مختصر تذکرہ طلحہ محمود صاحب نے اپنی تقریر میں کی ہے۔ چترال کے انتہائی محبت وطن باسی ہر دور میں نظر انداز رہے ہیں جو عوام میں خاص کرکے نوجوان طبقے میں احساس محرومی پیدا کرنے کا سبب بنا ہے۔ یہ بات بہت تشویشناک ہے۔ چترال کا سب سے بڑا مسلہ سڑکوں کی بدترین حالت ہے ۔ ان ٹوٹی پھوٹی سڑک نما کھنڈرات کی موجودگی میں ہم معاشی، سماجی، علمی اور صحت کے شعبے میں کبھی بھی ترقی کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔ لہذا چترال کی سڑکوں کی تعمیر و مرمت ہماری صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔ چترال کے اندر سڑکوں سے متعلق تحریکوں کے آغاز جس میں عوام کی بھرپور شرکت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عوام سب سے پہلے اپنے لیے قابل سفر سڑک چاہتے ہیں جو ان کا بنیادی حق ہے اور جو حکومت عوام کا یہ حق ان کو دے گی عوام اس کے ساتھ جڑے رہیں گے اور اس کو نمائیندگی دیتے رہیں گے۔ ہمارا ایک ہی نعرہ ہے “پہلے روڈ دو پھر ووٹ لو”ہم امید کرتے ہیں کہ سنیٹر طلحہ محمود صاحب چترالیوں کی محرومیوں کی داستان کو باضابط طور پر معزز ایوان بالا کے سامنے پیش کریں گے اور ان کے ازالے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔

1 thought on “چترال کے حق میں پہلی بار پردرد آواز”

  1. چترال کے پہاڑ بڑے عجیب ہیں۔ ان پر چڑھنے والے ہر نئے لیڈر کو ایسا لگتا ہے کہ اس نے فتحِ مکہ کر لی ہے، اور نیچے کھڑے بھوکے ننگے عوام — بس اس کا دیدار کرنے آئے ہیں۔ اب کے بار سینیٹر طلحہ محمود تشریف لائے۔ سفر سخت تھا، موسم خراب، سڑکیں ٹوٹی ہوئی، مگر الیکشن قریب تھے، سو بندہ تھوڑا ہچکچاتا ہے، راشن کی بوریاں لادتا ہے، کیمرہ مین بلاتا ہے، اور پہاڑوں میں گاڑی چلا لیتا ہے۔ پھر بریپ پہنچ کر چند مصافحے، کچھ تصویریں، دو تین “ہم آپ کے ساتھ ہیں” ٹائپ جملے، اور سوشل میڈیا پر پوسٹ: “چترال کے لوگوں کی آنکھوں میں امید کی چمک دیکھی۔”

    امید؟ نہیں جناب۔ وہ جو چمک تھی، وہ کیمرے کے فلیش کی تھی۔ اور آنکھوں میں جو نمی تھی، وہ اس بات کی تھی کہ اب یہ دوسرا بندہ بھی ہمیں استعمال کر کے چلا جائے گا۔ طلحہ محمود کو جو پذیرائی ملی، وہ خاصی دلچسپ تھی۔ سیلفی باز سماجی کارکن، ریٹائرڈ ٹھیکیدار، دیسی این جی اوز، اور وہی پرانے سیاستی بونے جو ہر آنے جانے والے کو “چترال کا درد رکھنے والا عظیم انسان” قرار دیتے ہیں — سب ایک صف میں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کل پیپلز پارٹی کی ہانڈی بیچنے کی کوشش کی تھی، پرسوں کسی اور “خیرخواہ” کا پوسٹر چسپاں کیا تھا، اور آج طلحہ محمود کے پیچھے کھڑے ہو کر “پہلا لیڈر جس نے چترال کا نام لیا” کا تمغہ عطا کر رہے ہیں۔

    حالانکہ چترال کے عوام کی یہ مسلسل بے توقیری کی سب سے بڑی ذمے دار پاکستان پیپلز پارٹی ہی ہے۔ پچاس سال سے اقتدار کے مزے لینے والی اس پارٹی نے چترال کو صرف کاغذی منصوبوں میں رکھا، نہ فنڈ دیا، نہ ترقی، نہ نمائندگی۔ بس ہر الیکشن میں ٹرک کی بتی اور بھٹو کا پرانا نعرہ۔ آج انہی کے ضلعی رہنما سینیٹر طلحہ کے ساتھ تصویریں بنوا رہے ہیں۔ شاید وہ یہ بھول گئے ہیں کہ جب پارٹی میں کام ختم ہو جائے، تو پھر نظریہ نہیں، راشن کام آتا ہے۔

    اور اب بات ہو جائے اس کالم کی جس نے سب سے زیادہ دل دکھایا۔ جی ہاں، شیر ولی خان اسیر صاحب کا کالم، جسے پڑھ کر لگا جیسے کسی پرانے فکری ستون نے اپنے قد سے جھک کر کسی چھوٹے راشن بیگ کو گلے لگا لیا ہو۔ اسیر صاحب نے طلحہ محمود کو ایسی صفائی سے “چترال کا اولین درد شناس نمائندہ” لکھا جیسے باقی سب اندھوں کی بستی میں یہ سینیٹر واحد بینا ہو۔ کالم کیا تھا، شکرگزاری کا مزار تھا۔ جن الفاظ میں سچائی کی بجائے “واہ واہ” اور درباری نرمی تھی۔

    اسیر صاحب سے توقع یہ تھی کہ وہ عوام کے ساتھ کھڑے ہوں گے، نہ کہ ایسے راشن بانٹنے والے سیاستدان کے لیے تعریفی نوٹ لکھیں، جس کا درد صرف الیکشن سے دو ماہ پہلے جاگا۔ جب آپ کے دانشور، آپ کے لیڈر، آپ کے مولوی اور آپ کے ٹھیکیدار سب ایک ہی تصویر میں مسکرا رہے ہوں — تو سمجھ لیجیے: آپ کی غربت ایک سیاسی موقع بن چکی ہے۔

    اب کوئی سینیٹر چترال آتا ہے، دو دن رہتا ہے، پہاڑوں پر گاڑی چلاتا ہے، دو تھیلے بانٹتا ہے، اور اس کے پیچھے ایک مکمل سیاسی خوشامدی انڈسٹری کھڑی ہو جاتی ہے — جو اس کے ہر جملے کو “تاریخی”، ہر مسکراہٹ کو “خلوص”، اور ہر جھوٹے وعدے کو “تبدیلی کی نوید” بنا دیتی ہے۔ چترال میں اگر سڑکیں نہیں بن رہیں تو اس کی وجہ حکومت نہیں، بلکہ ہم خود ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں جو تصویر، راشن اور دو جملوں کے بدلے ووٹ، غیرت، اور مستقبل سب گروی رکھ دیتے ہیں۔

    طلحہ چلے جائیں گے، ایک اور لیڈر آ جائے گا، پھر کوئی اور “اسیر” ان پر نثر لکھے گا، پھر کوئی اور سوشل ورکر “سر شکریہ” کی ویڈیو بنائے گا، اور چترال کی سڑک وہیں کی وہیں، بس پہیوں کے بغیر خواب دیکھتی رہے گی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest