سانحہ سوات کی رپورٹ

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

خبر آئی ہے کہ سانحہ سوات پر 384 صفحوں کی رپورٹ آگئی ہے۔ یہ 27 جون 2025ء کا واقعہ تھا۔ ڈسکہ سیالکوٹ سے ناران اور کاغان کی سیر کے لیے نکلنے والے 17 سیاح راستے میں اپنا ارادہ اور منصوبہ بدل کر ہزارہ جانے کے بجائے ملاکنڈ کے صحت افزا سیاحتی مقام سوات چلے گئے۔ سوات سے ویڈیو کال کر کے خاندان کے سربراہ کو بتایا کہ ہم نے ناران کاغان جانے کا ارادہ تبدیل کیا اور سوات پہنچ گئے۔ بڑا مزہ آرہا ہے، ہم بہت لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

سوات میں مینگورہ بائی پاس پر دریا کے کنارے ایک ہوٹل کے سامنے بیٹھ کر انہوں نے ناشتہ کیا۔ ناشتہ کے بعد دریا کی سیر کر رہے تھے۔ سیلاب نے انہیں گھیر لیا۔ بچتے بچاتے وہ دریا کے بیچ میں ریت کی ایک ڈھیری پر جمع ہو گئے۔ دائیں بائیں سیلاب تھا، درمیان میں ان کی چیخ و پکار تھی۔ دو گھنٹے اس چیخ و پکار میں گزر گئے۔ یہ جگہ دور دراز پہاڑیوں میں نہیں، ضلع کے ہیڈ کوارٹر میں تھی۔ پولیس اور سول انتظامیہ کے دفاتر ڈیڑھ کلومیٹر کے دائرے میں موجود تھے۔ ریسکیو 1122 کا دفتر ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر تھا۔ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر خوازہ خیلہ اور کمشنر آفس قریبی شہر سیدو شریف میں تھا۔ دو گھنٹوں کے اندر کسی کی طرف سے مدد نہیں پہنچی اور ایک ہی خاندان کے سیاح دو گھنٹے بعد سیلاب کی نذر ہو گئے۔

یہ بمشکل ایک صفحے کی رپورٹ بنتی ہے۔ اس رپورٹ کو 384 صفحات پر پھیلاتے ہوئے پورا پلندہ بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ دوسری طرف ہمارے دفاتر میں کسی غریب، کسی نادار، مصیبت زدہ اور مفلس کی آدھے صفحے کی درخواست کوئی نہیں پڑھتا۔ عدلیہ کے فیصلے کے آخر میں لکھا ہوا چار سطروں کا حکم کوئی نہیں پڑھتا۔ حساس ایجنسی کی طرف سے بھیجی گئی آدھے صفحے کی خفیہ رپورٹ کوئی نہیں پڑھتا۔ 384 صفحات پر مشتمل لمبا چوڑا پلندہ کون پڑھے گا اور کیوں پڑھے گا؟

وطن عزیز میں لیاقت علی خان کی شہادت کی رپورٹ کسی حکمران نے نہیں پڑھی۔ سقوط ڈھاکہ کی انکوائری رپورٹ کسی نے نہیں پڑھی۔ جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی رپورٹ کسی نے نہیں پڑھی۔ شہید بے نظیر بھٹو کی پارٹی چار بار اقتدار میں آئی، بے نظیر بھٹو پر ہونے والے حملے کی رپورٹ پڑھنے کی توفیق کسی کو نہیں ہوئی۔ اقوام متحدہ کی انکوائری میں جن لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا، ان کا نام لینے کی جرأت کسی کو نہیں ہوئی۔

\"Swatڈسکہ کے سیاحوں کی شہادت والے سانحے کی رپورٹ کے بارے میں دو باتیں اصولی طور پر مشہور ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ رپورٹ جتنی لمبی ہوگی، اتنی فضول، بے فائدہ اور بے وقعت ہوگی۔ اس میں بے معنی باتیں ہوں گی، گمراہ کن بیانیہ ہوگا اور آخر میں کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ ایسی رپورٹیں سرکاری دفتروں اور این جی اوز کی لائبریریوں میں منوں کے حساب سے نہیں بلکہ ٹنوں کے حساب سے پڑی ہوئی ہیں۔

ان میں 98 فیصد رپورٹیں ان ماہرین کی لکھی ہوئی ہیں جنہیں کنسلٹنٹ کہا جاتا ہے۔ یہ ماہرین ایک رپورٹ کے 80 لاکھ روپے سے لے کر ایک کروڑ تک لیتے ہیں اور اس قسم کی اوٹ پٹانگ رپورٹیں تیار کرتے ہیں۔ ان رپورٹوں کی کوئی افادیت نہیں ہوتی، کوئی وقعت نہیں ہوتی۔

سانحہ سوات کی رپورٹ وزیراعلیٰ کو بھی پیش کی گئی ہے، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے چیمبر میں بھی پہنچائی گئی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جو بات ڈیڑھ صفحے میں لکھی جا سکتی تھی، وہ بات 384 صفحات میں لکھ کر کیوں بھیجی گئی؟ اب 384 صفحات کو پڑھنے میں بھی وقت لگے گا، پڑھنے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنا محال ہے۔ چنانچہ اس کا حشر بھی ماضی کی رپورٹوں سے مختلف نہیں ہوگا۔

لوگ سچ کہتے ہیںجس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنی ہو، اُس واقعے پر 384 صفحات کی ایسی رپورٹ بناؤ جس کا کوئی سر پیر نہ ہو۔
چنانچہ سانحہ سوات کی بے سروپا رپورٹ آگئی۔

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟
منصف ہو تو حشر اب اٹھا کیوں نہیں دیتے؟

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest