داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
ذرائع ابلاغ میں تیسری بار ابراہیمی معاہدے کی صدائے بازگشت آرہی ہے اور اس بار یہ آواز پورے زور و شور کے ساتھ سنائی دے رہی ہے۔ نام بہت خوبصورت ہے۔ ناخواندہ یا نیم خواندہ مسلمانوں کے لیے حضرت ابراہیمؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر کا نام بہت مقدس ہے، مگر اس مقدس نام کو اسرائیل کی قیادت اور امریکی حکومت مسلمانوں کو مغلوب کرکے اسرائیل کی طاقت اور بالادستی کو تسلیم کرانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اگر نام کے فریب میں آکر مسلمانوں نے زہر کا یہ گھونٹ پی لیا تو فلسطینیوں کا خون رائیگاں جائے گا، غزہ کے مظلوم شہداء کی قربانیاں ضائع جائیں گی۔ غزہ میں فلسطینی عورتوں اور بچوں کی چیخ و پکار، آہ و زاری اور فریاد صدا بصحرا ثابت ہوگی۔
سعودی عرب کے جید علما اور مفتیوں پر مشتمل دار الافتاء نے معاہدہ ابراہیمی کی تجویز کو کفر قرار دیتے ہوئے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان کو خبردار کیا ہے کہ مذکورہ امریکی تجویز پر دستخط کرنے والا مرتد کے زمرے میں آئے گا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر 2017ء میں وائٹ ہاؤس کے مشیر تھے۔ تین عرب ملکوں کے حکمران خاندانوں اور ایک عرب ملک کے ولی عہد شہزادے کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات تھے۔ کوئی ان کا کاروباری شریک تھا، کوئی امریکی یونیورسٹی میں ان کا ہم جماعت۔ جیرڈ کشنر نے 2018ء میں عرب شیوخ، مراکش اور سوڈان کے سامنے یہ منصوبہ رکھا کہ ہم سب حضرت ابراہیمؑ کو مانتے ہیں، یہ ہمارے لیے قدر مشترک کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں نہ ہم \”معاہدہ ابراہیمی\” کے نام سے ایک معاہدہ کریں جس کی رو سے اسرائیل کے ساتھ دشمنی ختم ہو اور خطے میں امن قائم ہو۔
مغرب میں پرورش پانے والے نیم خواندہ حکمرانوں کے لیے یہ ایک بے ضرر سی بات تھی۔ یہ لوگ انگریزی جانتے ہیں، مگر قرآن و حدیث کے علوم سے بالکل بے خبر ہیں، اس لیے جیرڈ کشنر کی بات انہیں بھلی معلوم ہوئی۔ بات آگے بڑھی تو 15 ستمبر 2020 کو متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان نے کچھ مراعات لے کر معاہدے پر دستخط کر دیے۔
اپنے پہلے دورِ حکومت میں ٹرمپ کی یہ بڑی کامیابی تھی۔ اندرون ملک کئی ناکامیوں اور بے شمار بدنامیوں کے باوجود اس کامیابی کو سامنے رکھ کر ووٹروں نے ٹرمپ کو 2024ء میں دوسری مدت کے لیے منتخب کیا۔ اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد گزشتہ سات مہینوں سے صدر ٹرمپ اس ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔
مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے حضرت ابراہیمؑ کا نام ہمارے لیے مقدس ہے، اس نام پر ہماری جان بھی قربان، مگر ہم \”ابراہیمی معاہدے\” کو زہرِ قاتل سمجھتے ہیں۔ اس کی تین وجوہات ہیں
عقیدۂ توحید: حضرت ابراہیمؑ اللہ پاک کی وحدانیت کے قائل تھے، ان کا عقیدہ توحید پر استوار تھا۔ یہود و نصاریٰ نے شرک کا راستہ اختیار کیا ہے۔ مشرک کے ساتھ مسلمان کا کسی بھی نام پر معاہدہ نہیں ہو سکتا۔ یہ ہمارے بنیادی عقیدے کے خلاف ہے۔
خونِ ناحق: گزشتہ پچاس برسوں میں اسرائیل اور امریکہ نے ساٹھ لاکھ بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا ہے۔ یہ نسل کشی ہے، ہٹلر کے ہولوکاسٹ سے بھی بڑا جرم ہے۔ مسلمان اس ظلم کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔
عہد شکنی: اسرائیل اور امریکہ دونوں عہد شکن حکومتیں ہیں۔ ان کی کوئی انسانی، قانونی یا اخلاقی قدر نہیں۔ اس لیے کسی بھی نام یا بہانے سے ان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔
جس طرح یہود و نصاریٰ کی ایک تاریخ ہے، اسی طرح مسلمانوں کی بھی ایک تاریخ ہے۔ ہمارے سامنے قرآن مجید کے واضح احکامات ہیں جنہیں ہم \”نصوص\” کہتے ہیں۔ سیرت کی سب سے پہلی کتاب \”ابن اسحاق\” موجود ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ خاتم النبیین محمد ﷺ نے نبوت کا اعلان کیا تو جزیرۂ عرب میں رہنے والے سارے مشرکین خود کو \”ابراہیمی\” کہتے تھے۔ اللہ پاک نے اپنے نبی سے فرمایا کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں، ابراہیمؑ مشرک نہیں تھے۔ ان لوگوں کا \”ابراہیمی\” نام رکھنا جھوٹ، مکر و فریب ہے۔
نبی کریم ﷺ کو بار بار معاہدے کی پیشکش کی گئی، مگر خدا کے سچے رسول نے کسی بھی معاہدے سے انکار فرمایا۔
موجودہ حالات میں عرب ممالک پر اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لیے جس \”ابراہیمی معاہدے\” پر دستخط کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اس کی دو مثالیں دی جاتی ہیں
پہلی مثال شکاگو میں مرزا بہاء اللہ شیرازی (متوفی 1892ء) کے قائم کردہ مرکز کی ہے جہاں دنیا کے چھ مذاہب: صیہونیت، عیسائیت، اسلام، ہندو مت، بدھ مت اور جین مت کی الگ الگ عبادت گاہوں کو ایک چھت تلے لا کر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ تمام مذاہب کی بنیاد ایک ہے۔
دوسری مثال ابوظہبی کی ہے جہاں جیرڈ کشنر نے \”ہاؤس آف ابراہیمک فیملی\” کے نام سے ایک چھت کے نیچے مسجد، چرچ اور سینیگاگ تعمیر کروائے اور اسے ابراہیمی معاہدے کی پہلی اینٹ قرار دیا۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ صریحاً شرک اور کفر ہے۔ جو لوگ دو، تین یا نو کروڑ خداؤں کو مانتے ہیں، ان کے ساتھ معاہدے کا مطلب اسلام سے پھر جانا یا مرتد ہونا ہی ہے۔
نامور عالم دین مولانا زاہد الراشدی مدظلہ نے \”معاہدۂ ابراہیمی\” کی تجویز کو مسلمانوں کے خلاف بڑا فتنہ اور گھمبیر سازش قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ اس فتنے کے قریب نہ جائیں۔ ایک اللہ کو ماننے والے، تین خداؤں کو ماننے والوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور ابو جہل ایک نہیں ہو سکتے۔ حضرت عباسؓ اور ابولہب ایک نہیں ہو سکتے۔ پندرہویں صدی ہجری کے مسلمان ان کے پیروکار کیسے ہو سکتے ہیں؟
\”معاہدہ ابراہیمی\” کے میٹھے کیپسول میں جو زہر بھرا گیا ہے، وہ فلسطین، غزہ، لبنان، شام، عراق، یمن اور افغانستان کے شہیدوں کے خون سے غداری کے مترادف ہے۔ کوئی بھی مسلمان اس زہر کو منہ نہیں لگائے گا۔
علامہ اقبال نے درست فرمایا
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی

