دھڑکنوں کی زبان
محمد جاوید حیات
اس معلمی کو میں مشن، عشق، جنون، درد، شوق اور دنیا کا مہا کام سمجھتا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ ایک معلم تنخواہ، مراعات، عہدہ وغیرہ کی فکر کیوں کرے کہ ان کے سامنے گلشنِ انسانیت کے پھول سینچائی کے منتظر ہوں۔ ان کے ہاتھ میں ان کی تربیت ہو۔ کیا یہ مقام کسی تنخواہ سے کم ہے کہ ایک معصوم چہرے پر استاد کو دیکھ کر مسکراہٹ پھیل جائے، نشیلی آنکھوں میں چمک اتر آئے۔
مگر ہم جو راج مزدوری کرتے ہیں، کبھی اپنے آپ کو استاد تسلیم کیا ہے کہ بحیثیتِ استاد شاگرد کے دل میں اپنے لیے مقام بنا لیں؟ کیا فکر کرتے ہیں کہ اگر کہیں شاگرد کے دل میں اپنے لیے جگہ نہ بنا پائے، ان کی تربیت میں اپنی جان نہ کھپائیں تو کیا ہوگا؟ استاد شاگرد کا قیدی ہے، وہ استاد کو اپنی یادوں میں کیسے بساتا ہے، استاد کو یہ فکر ضرور کرنا چاہیے۔
دنیا میں استاد اور ماں کا کردار انسان کی زندگی میں وہ اہمیت رکھتے ہیں جن کی تشریح کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔ اس چھوٹے سے مضمون میں میرے پاس یہ دو طرح کے کردار اکٹھے قابلِ تبصرہ ہیں: ایک عظیم ماں کا اور ایک سراپا معلم بیٹے کا۔
سن ساٹھ کی دہائی میں ایک آدمی محمد اسحاق دیر سے ہجرت کر کے دروش میں آ بستے ہیں۔ خود چترال سکاوٹس میں نوکری کرتے ہیں۔ ان کی شریکِ حیات اگرچہ دنیوی تعلیم سے بے بہرہ ہیں، لیکن تربیت اور عظمت کی دھنی ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا جب میڈیکل کالج میں دوسرے سال کا طالب علم ہوتا ہے تو ان کے شوہر کا انتقال ہوتا ہے۔ یہ سن انیس سو بیاسی کا کوئی مہینہ ہے۔ وہ اپنے بیٹے ڈاکٹر یعقوب سے کہتی ہیں:
\”بیٹا، فکر نہ کریں، محبت کی جو چھتری تمہارے سر پہ سائبان ہے وہ تمہاری ماں ہے۔ اگر کوئی دنیوی مصیبت طوفان بن کے آئے گی تو پہلے تمہاری ماں سے ٹکرائے گی، تم تک نہیں پہنچے گی۔
دوسرا بیٹا محمد فراز چترال سکاوٹس جوائن کرتا ہے، روایتی سپاہی نہیں، تعلیم سے وابستہ رہتا ہے۔ پھر بیٹا ڈاکٹر محمد مسلم کارڈیو تھوراکس اسپیشلسٹ اور سرجن ہیں۔ پھر بیٹا ڈاکٹر خلیل احمد سینئر سائنٹسٹ ہیں۔
پھر بیٹا جس کا ذکرِ خیر ہو رہا ہے، بہت ساری صلاحیتیں لے کر دنیا میں آیا ہوا ہے۔ ان کا نام محمد خالد خان رکھا گیا ہے۔ اسکول کے زمانے سے صلاحیتیں نکھرتی گئیں۔ اسکولنگ اچھی رہی۔ اسلامک شریعہ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ایل ایل بی میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ پھر اسلامیات میں ایم اے کیا۔ اکنامکس میں ایم اے کیا۔ بی اے آنرز کیا۔
الپائن کلب (اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کا ہائیکنگ کلب) جوائن کیا۔ پانچ کلومیٹر کی دوڑ کے مقابلوں میں بہترین ایتھلیٹ کا نیشنل اعزاز حاصل کیا۔ تین سال تک ونر رہے۔ ساتھ بہترین فٹبالر بھی رہے۔ ہائی کورٹ میں پریکٹس کی۔
ان سب کامیابیوں اور مصروفیات کے باوجود ان کے اندر کا فطری معلم زندہ رہا اور انہیں بے چین کرتا رہا کہ وہ ایک کامیاب معلم بن سکتے ہیں۔ اسی کام میں ان کی انا کی تسکین ہے، اسی میں ان کی خوشی اور اطمینان ہے۔ یہ عجیب مثال اور انتخاب ہے۔ شاید کوئی ایسا استاد ہو جو خود اپنے شوق سے استاد بنا ہو۔
خالد خان کے پروفائل نے مجھے کچھ لکھنے پر مجبور کر دیا۔ مجھے اس قطعے نے بار بار گدگدایا کہ
یاروں کو خوف تھا کہ میں برباد ہوگیا
لیکن میں کتنے ذہنوں میں آباد ہوگیا
ہر شعبۂ حیات میں کی نوکری تلاش
جب کچھ نہیں ملا تو میں استاد ہوگیا۔
یہی ہمارے معاشرے میں استاد کا اسٹیٹس ہے۔ جب کوئی استاد اپنا تعارف کراتا ہے تو یہی قطعہ اس کا تعارف بنتا ہے۔
خالد خان بھی ایک کامیاب وکیل بن سکتے تھے۔ اپنے بھائیوں کے بل پر بیرونِ ملک جا سکتے تھے، پیسہ بنا سکتے تھے، اس مادہ پرستی میں اپنی دنیا رنگین سجا سکتے تھے۔ معاشرے میں استاد کی اسٹیٹس کا بھی انہیں اندازہ تھا۔ لیکن ان کے جنون نے سب کچھ معلمی پر قربان کر دیا۔
بڑے خوش قسمت ہیں وہ طلبا کہ ان کی کلاس میں ایک وکیل، ایک ایتھلیٹ، ایک ماہرِ معیشت، ایک فٹبالر استاد کی صورت میں ان کے سامنے کھڑا ہے۔ یہ معلمی کی لاج ہے، معلمی کا فخر ہے۔ خالد خان ثابت کر رہے ہیں کہ معلمی ایک معزز، معتبر اور قابلِ فخر پیشہ ہے۔ اس کو لوگ مجبوری میں نہیں بلکہ اپنے شوق اور دلچسپی کی بنیاد پر بھی اختیار کر سکتے ہیں۔
معاشرے میں استاد کو نالائق، نکما، کلموہی تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن آج خالد جیسے نوجوانوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ استاد ہر صلاحیت سے بھرپور بھی ہو سکتا ہے۔ البتہ آج معلمی کی راہ میں سسٹم کی کمزوری صرف ایک رکاوٹ رہ گئی ہے۔ اگر یہ دور ہو جائے تو یہی معلم معاشرے کے اسٹار بن جائیں گے۔
خالد معلمی کے آکاش کا ایک چمکتا ستارہ ہے، جنہوں نے مادہ پرستی کے مواقع ٹھکرا کر معلمی اختیار کی ہے۔ یہ اپنی دنیا کے درویش ہیں، جس طرح شاہین پرندوں کی دنیا کا درویش ہے۔
خالد سے ملنے کا شرف حاصل نہیں ہوا، البتہ ان کا شوق میری معلمی کا وہ خواب ہے جو آج پورا ہو رہا ہے۔ ان کی پروفائل کی تصدیق میں نے ایک اور بہترین معلم حسام الدین سے کی، جو ہائر سیکنڈری اسکول دروش میں ان کے اسٹاف میں ہیں۔ حسام الدین کی چارج رپورٹ پر دستخط کرنے کا شرف مجھے حاصل ہے، جب ان کی پہلی تقرری ہائی اسکول بمبوریت میں ہوئی۔ میں نے ان میں پیشہ ور معلمی کے جوہر ڈھونڈھے۔
خالد خان کی پروفیشنلزم اور تربیت سے ایک عظیم ماں کی خوشبو آتی ہے جنہوں نے اسکول نہ پڑھنے کے باوجود اپنے بچوں کو ہیرا بنایا۔ خالد خان سلیم صاحب کے اسکول میں سروس دے رہے ہیں۔ سلیم صاحب کی پرنسپلی کے وارے، کہ عقیق کاٹنے کے فن نے خود ان کو نگین بنایا ہے۔ وہ ہیرا چھانٹتا ہے، کاش ان کے اسٹاف میں رہنے کا موقع ملتا، ان کو ٹک ٹک کڑکاتا۔
خالد خان کا مثالی کردار ہے۔ بطور سی ٹی استاد انہوں نے معلمی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہے۔ معلمی کو زندگی کی منزل قرار دیا ہے۔ لازم ہے کہ یہ ایک عظیم مقصد ہے۔ ابھی ان کی عمر عزیز صرف 45 کو چھو رہی ہے۔ معلمی کے ناز اٹھانے کے لیے وقت پڑا ہے۔ ممکن ہے ان کے ہاتھ سے کئی ہیرے تراشے جائیں گے، کئی شاہینوں کو اندازِ شاہینی سکھایا جائے گا، کئی شگوفوں کو کردار کی خوشبو سے بھر دیں گے۔ ایک فطری استاد کا یہی خاصہ ہوتا ہے۔
سلام ہے اس ماں کو جن کی گود میں ان کی پرورش ہوئی ہے۔
دم عارف نسیمِ صبح دم ہے
اسی سے ریشۂ معنی میں نم ہے
اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے۔

