داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
ایک فلمی گیت کا مصرعہ ہے ’’کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے‘‘ مگر آج ہم ان لوگوں کا ذکر نہیں کرتے۔ آج کی خبر یہ ہے کہ کچھ لوگ ملک میں نیا الیکشن کروانے اور کچھ لوگوں کو اقتدار میں لانے کے لئے کچھ لوگوں کو استعمال کرکے کچھ لوگوں کے ذریعے کچھ لوگوں کو گھر بھیجنا چا ہتے ہیں اور کچھ لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ کچھ لوگ حکومت میں آکر ملک کو موجودہ بحران در بحران کی کیفیت سے نکا لینگے۔ مگر کچھ لوگوں نے کبھی اس بات پرغور نہیں کیا کہ الیکشن سے ملک اور قوم کا کوئی مسئلہ کبھی حل نہیں ہوا۔ 1970ء میں کچھ لوگوں کے بیحد اصرار پر الیکشن ہوئے تھے کچھ لوگوں نے نتاءج کو تسلیم نہیں کیا اور ملک ٹوٹ گیا۔
کچھ لوگوں کو یاد ہوگا کہ 19دسمبر 1984کو ملک میں ریفرنڈم ہوا تھا۔ ریفرنڈم میں بڑے پیمانے پر بےضابطگی اور بد عنوانی ہوئی نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری مقامی زبانوں سے لیکر قومی زبان اُردو تک ہر زبان میں جعلسازی کو ’’ریفرنڈم ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے باوجود کچھ لوگ کہتے ہیں کہ باربار الیکشن ہو تے رہے تو جمہوریت جڑ پکڑ لے گی لیکن کچھ لو گوں کو یہ بات بھول جاتی ہے کہ ایک ہی الیکشن جمہوریت کا ستیاناس کر دیتا ہے۔ الیکشن میں جو دشمنی جنم لیتی ہے وہ دشمنی جانی دشمنی میں بدل جاتی ہے۔ اسمبلی میں جانی دشمن آمنے سامنے آجاتے ہیں گالی گلوچ کے سوا کچھ بھی سننے کو نہیں ملتا۔
کچھ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ 8فروری 2024کو ملک میں الیکشن ہوئے تھے جو صاف شفاف تھے غیرجانبدارانہ انتخابات تھے آزاد انہ انتخابات تھے کیونکہ دو تہائی سے زیا دہ اُمیدواروں کو آزاد کا نام دیا گیا۔ انتخابی نشان کسی کو انڈہ ملا تو کسی کو مر غی ملی اس کے باوجود کچھ لوگوں نے شور مچا یا کہ نتاءج قبول نہیں 6مہینے یا 10مہینے گذر نے کے بعد کچھ لو گوں کی خواہش پر پھر انتخا بات ہوئے تو کونسی کرامت ان کو متنازعہ ہونے سے بچا ئیگی یہ جو کچھ لو گوں نے الیکشن کمیشن کو متنا زعہ قرار دیا ہے اس کا کیا حل نکالا جائے گا یہ جو کچھ لو گوں نے اعلیٰ عدالتوں پر سوال اٹھا یا ہے۔ اس سوال کا جواب کون دے گا یادش بخیر جنرل ضیاء نے جولائی 1977 میں اعلا ن کیا کہ اکتوبر میں عام انتخابات ہونگے قوم سوچ سمجھ کر نیک، خدا ترس، پا رسا اور متقی لوگوں کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجے۔ کراچی کے ایک اخبار نے اس پر شذرہ شاءع کیا شذرے میں دعا کی گئی تھی کہ اللہ پاک پاکستان کی 5اسمبلیوں کے ساتھ ایوان بالا میں جگہ پانے کے لئے 865فرشتے بھیجے کیونکہ جو خوبیاں بیاں کی گئی ہیں اور جو شرائط رکھی گئی ہیں ان پر پورا اترنے کے لئے ہمارے پاس بندہ بشر کوئی ایک بھی دستیاب نہیں۔
یاد رہے اُس وقت ہمارے آئین کی مرمت نہیں ہوئی تھی اور کچھ لوگوں نے کچھ لوگوں کو دوڑ سے با ہر نکالنے کے لئے آرٹیکل 62اور 63کا پیوند اس میں نہیں لگایا تھا ۔ پھر بھی پابندیاں بہت تھیں چنانچہ کچھ لوگوں نے پہلے ’’احتساب پھر انتخاب‘‘ کا نعرہ لگاکر اکتوبر کے انتخا بات کو ’’اللہ کے فضل و کرم ‘‘ سے غیر معینہ مدت تک ملتوی کرادیا ۔ 51سال گذرنے کے بعد آج ہم ایک اور نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔
کچھ لوگوں کے نزدیک یہ موڑ پیچیدہ بھی ہے نازک بھی۔ اس وقت اگر اللہ پاک کی ذات عالی سے فرشتے بھیجنے کی استد عا کی گئی تو 80ہزار فرشتے منگوا نے پڑینگے ایک ہزار سے کچھ اوپر تو ارٹیکل 62اور 63کے تحت اسمبلی اراکین کی تعداد ہے۔ 19ہزار سے کچھ کم فرشتے الیکشن کمیشن کے لئے، ریٹرننگ افیسروں کے لئے پریذاءڈنگ اور پو لنگ افیسروں کے لئے منگوا نے پڑینگے ، ووٹوں کی گنتی بھی فرشتوں سے کرا نی ہو گی، فارم 45اور فارم 47بھی فرشتوں کے ہاتھوں میں تھمانے ہونگے ورنہ کچھ لوگ انتخابی نتاءج کو تسلیم نہیں کرینگے آج ہم بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں نہ پیچھے ہٹنے کی گنجا ئش ہے نہ آگے جانے کا راستہ ہے شاید اس گھمبیر صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے پا کستان میں ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کے بانی مبانی نے 1960 میں ببانگ دہل اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کا پودا کامیاب نہیں ہوگا۔ اس ملک کی فضا اس یورپی درخت کو راس نہیں آئیگی۔ ان کا خدشہ درست ثابت ہوا پھر بھی کچھ لوگ کہتے ہیں بدنصیب قوم کی مقروض معشیت کے خالی خزانے سے 29ارب روپے ایک بار پھر ایک اور ناکام تجربے پر لگاکر دیکھو۔

