Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

چترال کے مختلف مقامات کی لوک تاریخ (قسط 3)

Prof Israr Uddin

پروفیسر اسرار الدین

دریا کے بائیں کنارے کے ساتھ سنوغر اگر چلیں تو پہلے میراگرام اور اسکے بعد اوئ کے دیہات آتے ہیں۔اسکے بعد بونی پہنچا جاتا ہے۔ سٹائین جب مستوج جاتے ہوئے اوی اور میراگرام سے گذرے تو اپنا تاثر یوں بیان کیا۔ ”اوی اور میراگرام کے خوبصورت گاؤں سے گذرتے ہوئے وہاں کے خوبصورت باغات، چناروں کے جھنڈ، پس منظر میں شاندار گلیشیر جہاں سے بہتے ہوئے ندی نالے جن پر یہاں کی زندگی کا دار ومدار ہے۔ یہ سب کچھ یہاں کی پُرانی اور مستحکم تہذیب وتمدن کے ثبوت کے طورپر نظروں کے سامنے آجاتے ہیں۔ 

چنار کے درخت کا چترال کے ادب وثقافت میں اہم حصہ رہا ہے۔چنار کا سایہ شاہ بڑوکی گاز اور چھیر وغوچھار ہر ایک چترالی شاعر کا آئیڈیل منظرنامہ ہواکرتا تھا۔اسکے علاوہ روایات کے مطابق چنار کے درخت کی سماجی طورپر بڑی اہمیت ہواکرتی تھی۔چونکہ چنار ایک تناوردرخت ہوتا ہے اور کافی جگہ گھیرلیتاہے۔اسلئے صرف ایسے لوگ اپنے گھروں میں یہ درخت لگایا کرتے تھے جن کے گھر بڑے ہوتے تھے۔روایت میں یہاں تک آتا ہے کہ پُرانے زمانے میں کسی گھر میں چنار کا درخت ہونے کی یہ نشانی ہوتی تھی کہ مالک مکان بارسوخ شخصیت کا مالک ہوں گے۔اس لئے کوئی بھی اجنبی مسافر بلاروک ٹوک ایسے گھر میں مہمان بننا اپنا حق سمجھتا تھا۔اور اس چنار والے گھر کامالک اسے اپنی زمہ داری سمجھتا تھا کہ اس مہمان کی دل سے خاطر مدارت کرے“۔

ایک میراگرام کا یارخون میں ذکر ہواتھا۔ دوسرا میراگرام سنوغر کے ساتھ ہے۔جیساکہ پہلے ذکرہوا۔گرام ہندی لفظ ہے۔جوکسی قصبہ یاگاؤں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔میر(میرا)ڈاکٹر اسماعیل علی اخگرکے مطابق پہاڑ (یاشاید اونچھے مقام کو) کہتے ہیں۔اسلئے میراگرام کانام بھی اسکے محل وقوع کی وجہ سے شاید پڑاہوگا۔اس سے آگے اوئ کا چھوٹا اور خوبصورت گاؤں آتا ہے۔چترال کے دیہات میں اوئ، اویر، اورک، اویرت قسم کے مشترک نام مختلف علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔مثلاً ایک اوئ لٹکوہ کے علاقے میں شغور کے ساتھ ہے۔اسی طرح اسی مناسبت سے اوئ گول کو اویرت گول کانام دیاجاتا ہے۔اور اسی نام سے ایک چراگاہ بھی ہے۔اسی طرح اویر کے دیہات زیرین موڑکھو میں برم کے ساتھ لوٹ اویر کے نام سے،ارکاری میں ارکاری اویرکے نام سے،چرن کے ساتھ چرن اویر،لٹکوہ میں اورک نام سے(وادی ایژ میں) ایک گاؤں۔یہ یقینا پُرانے نام ہوں گے۔لیکن ان کے ماخظ کاپتہ نہیں چلتا۔فارسی ڈکشنری میں ایک عربی لفظ مجھے ملا۔اوی جس کا مطلب پناہ اورٹھکانا پکڑنا لکھا ہے۔بہت ممکن ہے کہ یہی لفظ اس کا ماخذ ہو۔باقی یہ اہم لفظ معلوم ہوتا ہے۔اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہوگی۔اوئ گاؤں معلوم نہیں کتنا پُرانا ہوگا البتہ یہ بات ہے کہ یہاں آباد قبیلے سنگھے، شعنیے، رضاخیل،زوندرے، بول ژاوے وغیرہ گردونواح کے مقامات سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں۔اسلئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گردونواح کے دیہات کی بہ نسبت یہ گاؤں بعد میں آباد ہوا ہوگا۔

بونی :(Booni)اپر ضلع چترال کا صدر مقام ایک وسیع میدان پرواقع ایک خوبصورت قصبہ ہے۔کہتے ہیں پُرانے زمانے میں یہاں گونی درخت کا جنگل ہوتا تھا۔اسی نسبت پہلے گونی بعد میں بونی مشہور ہوا۔(واللہ اعلم) بونی ہندی لفظ ہے جسکے معنی تخم پاشی یاتخم پاشی کاوقت ہے۔معلوم نہیں اس کا بونی سے کوئی تعلق ہوگا یا نہیں۔ہندی میں ایک اور لفظ بھی ہے یعنی بونی جوبونا(Dwarf)کامونث ہے۔لیکن اس کا ہمارے بونی سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوسکتا۔ایک روایت کے مطابق یہاں ایک قبیلہ ڑوقے آباد ہے۔اس قبیلے کا جد امجد شاہ دردانہ بیگ پارئیس کے زمانے میں بدخشان سے آیاتھا۔اس وقت یہ بالکل غیرآباد تھا۔اس نے یہاں نہرنکال کر اسکو آباد کیا تھا۔رئیس مہتر نے اسی کو یہاں کا میر مقرر کیاتھا اس کابیٹا شاہ عظام درواز اور اسکے دوبیٹے امیر مہدی اور میرشاوی اپنے زمانے میں کافی اثرورسوخ کامالک رہے۔پہلوان مہتر کے زمانے میں ان کو زوال آیا۔اس خاندان سے تعلق رکھنے والے لوگ چٹورکنڈ (ورشگوم) اور چمرکن(لوئر چترال)میں بھی آباد ہیں۔ان کے علاوہ دوسرے قبیلے مندرجہ زیل ہیں۔

دوکے:۔ یہ اپنے آپ کوسومالک کی اولاد بتاتے ہیں۔سومالک ایام قدیم میں بدخشان سے آیا تھا۔ثبوت کے طورپر بتاتے ہیں کہ اس قوم کے پاس ریشن میں سومالک کی جائیداد ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ کہ ڑوقے کے بعدیہ قبیلہ یہاں آباد ہوگا اور ڈوک Dokنام کی ایک جگے کوآباد کیا تھا اس نسبت سے ان کا ڈوکچی یا ڈوکی اور دوکے بن گیا۔روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس قبیلے کے اباواجداد کے پُرانے وقت کے حکمرانوں سے کسی وجہ سے چپقلش رہی تھی۔ان کے ایک بڑے جسکا نام مہربان شاہ کو جیل بھیج دیا گیا تھا اور جیل میں ہی اسکی وفات ہوگئی تھی۔

سیدان:۔ دمشق(شام) سے ایران وہاں سے خراسان پھر بذریعہ بروغل یارخون پھر براستہ شاہ جنالی تورکھو کے گاؤں رچ اوروہاں سے بعض یہاں آکر آباد ہوئے۔یہ مہترسلیمان شاہ کے زمانے میں یہاں آئے تھے یہاں کے علاوہ چترال کے کئی مقامات میں ان کی شاخیں آباد ہیں۔

قراچھئے:۔یہ سیدان کے ساتھ آئے تھے۔یہ ورکھپ،وریجن اور شالی میں بھی آباد ہیں۔

شغینے:۔ بدخشان سے سلیمان شاہ کے وقت آئے تھے۔پہلے مستوج پھر یہاں اور دوسرے مقامات میں بس گئے۔اس قبیلے کے بعض لوگ ماہراھنگر تھے۔اور تلواریں بناتے تھے۔اسلئے شاہی درباروں میں ان کی بڑی قدر رہتی۔

زوندرے:۔یہاں کا اہم قبیلہ زوندرے ہے۔مقامی روایت کے مطابق یہ شاہ سلیمان مہتر کے زمانے میں بدخشان سے یہاں آئے تھے۔مقامی روایات کے مطابق یہ ورشگوم سے ہوکر یہاں آئے تھے۔مستوج میں اس وقت خوش وقتے مہترسلیمان شاہ کی حکومت تھی۔یہ لوگ پہلے یہاں آباد ہوئے وہاں سے بونی اور دوسرے علاقوں میں پھیل گئے۔ان کا جد امجد سومالک تھا۔وہ کسی زمانے میں اس تمام علاقے کا حکمران تھا۔یہ اپنا شجرہ سخی مردان تک ملاتے ہیں۔سخی شاہ مردان حضرت ابوطالب کے بیٹے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بھائی تھے یا وہ خود تھے۔سرانگے،قاسمے اور سرونگے یہ تین شاخیں تین بھائیوں کی بن گئیں۔زوندرے نام اس لے پڑگیا۔بدخشان کے جس جگے سے یہ آئے اس کانام زوند تھا۔زوندرے کی متوازی شاخ سیاہ گوش ہے۔یہ شاہ عبدالقادر کی اولاد ہیں۔جوسرانگے اورقاسمے کا دوست تھا اور بدخشان سے سنوغر آکر آباد ہوگیا تھا۔بعد میں شاہ عبدالقادر کو چقار کوح(یارخون) میں کسی نے قتل کیا۔سرانگ کوپتہ چلاتواسکی بیوہ کو اپنے پاس بلاکے اس سے شاد ی کی اور اسکے نومولود بچے(جسکی ایک کان پرکالانشان تھا جسکی وجہ سے اسکو سیاگوش کانام دیا گیا)کی پرورش اور تربیت کی۔یہ بچہ بڑا ہوکر بڑی صلاحیتوں کامالک بنا اور مشہور ہوا اور شاہی دربار تک رسائی حاصل کی اور کافی اثرورسوخ کامالک بنا۔سیاہ گوش کے تین بیٹے تھے سلطان شاہ، قاسم اور صالح۔ سلطان شاہ کی اولاد بونی اور مستوج میں تابریپ آباد ہیں۔قاسم کی اولاد بونی میں اور صالح کی اولاد میراگرام (نمبر1) سنوغر اوربونی میں آباد ہیں۔سومالک کے بارے یہاں کنفییوژن ہے کیا دوکے والا سومالک کوئی دوسرا سومالک ہے یا یہ ایک ہی لوگ ہیں اس کا جواب مقامی لوگ ہی دے سکتے ہیں۔

شکارے: یہ بڑونز(بلتستان) سے کٹور اول کے زمانے میں آئے تھے۔ان کے کچھ لوگ ڑاسپور میں آباد ہوئے تھے۔

امیربیگے۔ کٹور اول کے زمانے میں گلگت سے پہلے مستوج پھریہاں آئے۔کچھ موژگول جاکے آباد ہوئے۔

بونی کے بارے میں دوباتیں محققین کو کھٹکٹھی ہیں۔ایک یہ کہ یہ ایک اہم مقام ہونے کے باوجود 1953ء سے پہلے کسی قسم کا انتظامی مرکز نہیں رہا۔جسکی وجہ سمجھ نہیں آرہی۔نیز دیگر اکثر اہم مقامات میں پُرانے قلعوں کے اثار پائے جاتے ہیں لیکن بونی میں اس قسم کے اثار ندارد ہیں۔مزید یہاں پرکسی قسم کے اثار قدیمہ کے بارے کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔بہرحال شاید آگے چل کرمقامی سکالر اس پرروشی ڈال سکیں۔

چرن اور چرن اویر:۔یہ جڑوان(Twin)دیہات بونی سے آگے واقع ہیں۔چرن دریا کے کنارے آباد ہے اور چرن اویر چرن سے اوپر جاکے پہاڑ کے اوپر واقع ہے۔اویرلفظ کا پہلے ذکر ہوا تھا۔یہاں اس پرمزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں۔بہرحال یہ لفظ اہم ہے اس پرتحقیق ہونی چاہیے۔چرن اویر جیساکہ میں نے سرسری انداز میں دیکھا۔ اس کے تین طرف پہاڑوں میں درمیان میں یہ ایکamphitheater(گول گھر) کے مانند ہے۔جیالوجی میں ایسے مقامات کو CWMکہتے ہیں جوکسی زمانے میں گلیشیر سے بھرا ہوتا ہے۔بعد میں گلیشیر پگھلنے کے بعد اس قسم کی ساخت کی ایک جگہ وجود میں آجاتی ہے۔(یہ میرا سرسری تصور ہے۔ماہرین اس پرصحیح رائے دے سکتے ہیں)۔چرن لفظ ہندی لفظ ہے۔جسکے معنی کسی کوکسی کے پناہ میں دینا ہے۔جیساکہ کہاجاتا ہے۔چرنوں میں دینا۔کھوار میں ایک طرز اظہار(expression)ہے۔ ”کوس اوانو موڑی دِک“۔یہ اس لفظ کابہتر مفہوم ہوسکتا ہے۔تاریخی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے۔کہ چرن گاؤں قدیمی دیہات میں سے ایک ہے۔چرن میں ایک پتھر پرخروشتی زبان میں تحریر شدہ ایک کتبہ ہے۔جسکی سرارل سٹائین نے جب یہاں سے گذرے تھے تشریح کی تھی۔وہ بتاتے ہیں کہ کتبہ پرلکھے ہوئے اصلی الفاظ یوں ہیں ”دیوا دھرمویام راجہ ورمانا“یعنی راجہ ورمن کی طرف سے دیوتاؤں کی خدمت میں نذرانہ“سٹائین لکھتے ہیں کہ سنٹرل ایشیاء کے مختلف علاقوں مثلاًکا شغر ختن وغیرہ میں بھی اس قسم کے کتبے موجود ہیں۔یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہیون سانگ نے بلخ میں بھی اس قسم کے کتبوں کا ذکر کیا ہے اور ان کی آپس میں مشابہت اور مطابقت کی نشاندہی کرتے ہیں ان باتوں کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جس وقت یہ کتبے لکھے گئے ہوں گے۔اسی زمانے میں گاؤں کانام چرن(یعنی دیوتاؤں کے پناہ میں دیا ہوا)رکھا گیا ہوگا۔(واللہ اعلم)(اس قسم کا کتبہ برنس کے قریب پختوری دینی کے مقام پربھی سٹائین نے نوٹ کیا تھا۔وہاں پر اس پر مزید لکھا جائے گا۔ان کتبوں کی تصویریں بھی یہاں دی جارہی ہیں (۔سٹائین یہاں ایک غلطی کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ اس پتھر پرکتبے کوپہلے دفعہ بڈلف نے رپورٹ کی تھی۔اس نے کسی دوسرے کے کہنے پرعمل کرکے ”جے ورمن“کی جگہ”جے پال“ذکر کیا تھا۔جسکی وجہ سے بہت سے مورخین نے بعد میں ’جے ورمن“ کوپشاورکا ہندوبادشاہ ”جے پال“ سے ملادیا۔اوراس علاقے کو ہندوبادشاہ کا ایک حصہ قراردیا تھا۔ہندو شاہی کاتعلق گیارھویں صدی عیسوی سے ہے جبکہ اس کتبے کا زمانہ پانچویں صدی عیسوی بتایا ہے اور سٹائین اسے بدھ مت کازمانہ قراردیتا ہے۔شاہ مراد صاحب کے مطابق چرن اور چرن اویر میں مرادبیگے،مغلے،مغلیکے،شاہ غوثیے اور معشوقے قبیلے آباد ہیں۔چر ن میں ان کے علاوہ سیدان اور بوباکے بھی بستے ہیں۔چرن اویرکی قدامت کے ثبوت کے طورپر وہ بتاتے ہیں کہ حال کے زمانوں تک یہاں سینکڑوں سالوں کے عمر کے پُرانے اخروٹ اور دیگر درخت موجودتھے جن کواب لوگوں نے کاٹ دیا ہے۔یہاں کے قبیلوں میں خوش احمدے(یاخوشاماتے)کاتعلق شاہی خاندان سے ہے۔اس خاندان کا سلسلہ باباایوب تک جاتا ہے جو رئیس دور کے آخری زمانے میں خراسان سے آکے لون گاؤں میں آباد ہوئے تھے۔ان کی تیسری پشت میں سنگین علی اپنی قدرتی صلاحیت کی وجہ سے نامور ہوا۔رئیس بادشاہ ناصررئیس کاداماد بنا۔اس رشتے سے اسکے دوبیٹے شاہ محمد رضا اور شاہ محمد بیگ تولد ہوئے۔محمد بیگ کے چھ لڑکے تھے۔شاہ محترم شاہ،خوشوقت،خوش احمد،بودلہ،طریق اللہ اور نعمت اللہ۔شاہ محترم شاہ نے بعد میں ملک میں طوائف الملوکی سے فائدہ اٹھاکرکافی خونریزی کے بعد ملک پرقبضہ کرلیاہے۔اور ملک کواپنے بھائیوں میں اس طرح تقسیم بعد میں ملک میں طوائف الملوکی سے فائدہ اٹھاکرکافی خونریزی کے بعد ملک پرقبضہ کرلیاہے۔اور ملک کواپنے بھائیوں میں اس طرح تقسیم کردیا۔محترم شاہ خود کٹور کالقب اختیار کرکے چترال میں بادشاہ بنا۔خوشوقت کویاسین گلگت کی مہتری دیدی،خوش احمد کو مستوج کی مہتری دیدی۔طریق اللہ موڑکہو کا گورنر،نعمت اللہ اور بودلہ کوموڑکہو میں جائیدادیں ملیں۔خوش احمد جو بعد میں جنگ میں رئیسوں کے مقابلے میں مارا گیا۔اسکی اولاد خوش احمد کہلائی۔بتایا جاتا ہے کہ اس کا بیٹا شاہ جہاں پناہ مانگنے یارکندچلاگیاتھا۔جہاں اس نے بہادری دکھا کے مقامی حکمران سے ڈوڈول کالقب پایا یہ بعد میں چترال واپس آیا اور بونی،جنالی کولی کوچ،چرون اویر اور ریشن میں جاگیر حاصل کی۔جہاں ان کی اولاد اب تک موجود ہے(بحوالہ اخوانزادہ فضل واحد بیگ،تاریخ اقوام چترال صفحہ 315 تا316)۔

مغلے:۔یہ مغلان دہ چرن اویر اور چرن گاؤں میں آباد ہیں۔اخوانزادہ(صفحہ261)کے مطابق یہ قوم عہد رئیسہ سے ایک باعزت اور معزز قوم بتائی جاتی ہے۔روایات کے مطابق رئیس بادشاہ شاہ نادر کی بل سنگھ کے مقابلے میں مدد کے لئے شاہ چین نے ایک مغل سردار کی زیر قیادت کئی ہزار کی فوج چترال بھیجی تھی۔اس سردار کانام تاج مغل تھا۔یہ فرغانہ کا باشندہ تھا۔شاہ چین کے حکم سے یہ چترال پہنچ کر شاہ رئیس کی مدد کرکے ان کوفتح دلادی۔اس زمانے سے یہ قوم باعزت قوم تصور کی جاتی ہے۔یہ لوگ چرن اویر کے علاوہ سنگور،مغلان دہ،کوغذی،اویون،پرابیگ(لٹکوہ) سین اور سین لشٹ میں آباد ہیں۔

مغلیکے:۔یہ بھی پُرانے زمانے میں وسطی ایشیاء سے آئے ہوئے لوگ ہیں۔چرن اویر میں چشمہ کے قریب ان کی آبادی ہے۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ یہاں اولین آباد کار رہے ہیں۔

شاہ غوٹیے:۔غالباً اویر کے علاقے سے یہاں آئے ہوں گے کیونکہ اویر میں ان کی زیادہ آبادی ہے۔اس کا ذکر وہاں کیا جائے گا۔

مفشوقے:۔گلگت سے کسی زمانے میں خوش احمد ے کے ساتھ یہاں آکے آباد ہوئے۔

چرن گاؤں میں مندرجہ بالا کے علاوہ سیدان،بوباکے اور خوشیے آباد ہیں۔بوباکے گلگت سے اور خوشے تورکہو سے کسی زمانے میں آکر یہاں آباد ہوئے ہیں اور سیدان چرن کامورث اعلےٗ سید وصی محمد رئیس حکمران کے زمانے میں چترال آئے تھے۔یہاں آنے سے پہلے وہ خراسان میں آباد تھے۔ان کی دسویں پشت میں سید عبدالحسن ابن سید گل خندہ چرن میں آباد ہوئے اور ان کی اولاد اس وقت سے یہاں سکونت پذیر ہے۔یہ لوگ نسلاًکاظمی کہلاتے ہیں اور سیدعبدالحسن اپنا نسب پینتیس(35)ویں پشت میں امام موسیٰ کاظم رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچاتے ہیں۔چرن سے نیچے جاتے ہوئے کوراغ سے گذرتے ہیں۔یہ غالباًچرن کے بعد میں ابادشدہ گاؤں ہوگا کیونکہ راغ فارسی کا لفظ ہے جسکے معنی سبزہ زار پہاڑ کے نیچے میدان،دامن کوہ اور جنگل لکھے گئے ہیں۔سناہے بدخشان میں بھی راغ کے دیہات موجودہیں اور چترال میں بھی راغ نام کاگاؤں آبادہے۔ریشن میں بھی راغین گول موجود ہے البتہ یہاں راغ کے ساتھ ”کو“کالاحقہ لگا ہواجسکامطلب شاید کوہ ہو۔کوراغ سے آگے کڑاک کی مشہور تاریخی گھاٹی آتی ہے۔جو 1895ء میں چترالی مجاہدین کا انگریزوں کے ساتھ مقابلہ کی یاد دلاتی ہے۔اس وقت دوانگریزافسروں کے ہمراہ ساٹھ مسلح سکھ سپاہی مستوج سے چترال آتے ہوئے مجاہدین کے نرغے میں آئے تھے۔    

جسکے نتیجے میں ایک انگریز افسر کپٹن راس اور بہت سے سپاہی ہلاک ہوئے تھے۔دوسرا افسر کپٹن جونز اپنے بعض سپاہیوں کے ساتھ مجاہدین کے گھیرے سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔اور واپس بونی چلاگیاتھا۔کوئی بیس(20)سکھ سپاہی اس گھاٹی کے کسی غار میں چھپ چھپاتے کچھ دن لڑتے رہے۔مگر آخرکار ان کابھی خاتمہ ہوگیاتھا۔(بحوالہ تاریخ چترال غلا م مرتضیٰ)۔یہاں سے آگے جاتے ہوئے راستے میں زئیت کاگاؤں آتا ہے۔زئیت بھی فارسی کا لفظ ہے جوعربی سے لیاگیا ہے۔اسکے معنی روغن زیتون لکھا ہے۔جنگلی زیتون کے درخت چترال کے پہاڑوں میں کافی پیدا ہوتے ہیں شاید یہاں بھی ہوتے ہوں گے۔ریشن:۔ ریشن ضلع مستوج کے بڑے اوراہم دیہات میں سے ایک ہے۔لوئر چترال سے پرچترال جاتے ہوئے دریائے مستوج کے بائیں کنارے پر اپرضلع کا پہلا اہم گاؤں آتا ہے۔

گریم لشٹ،نرزوم،راغین گول اسکے ساتھ ملحقہ چھوٹی دیہات ہیں یہاں کئی قبائل آباد ہیں جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔رضاخیل، خوشامدے، خوشوقتے، کٹورے، بیگالے، بروشے، زوندرے،بروڑے، میرشکارے، پانے، بوباکے، افغان، وزیربیگے، سنھگے،ووکیلے،بائیکے،محنت گار، سید، کسارے، میگاسارے، بوڈے، شکارے، بالژاوے اور کلاشے۔

کہاجاتا ہے کہ پہلے یہ غیرآباد جنگل تھا۔دوبھائی محمدبیگ اور اس کا بھائی روم جوپہلے لون گاؤں میں رہتے تھے۔انہوں نے اس غیرآباد جگے کودیکھا توان کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ اسکو آباد کیا جائے چونکہ اس گاؤں میں سے خوبصورت ندی بہتی تھی۔جسمیں سارا سال وافر مقدار میں پانی بہتا رہتا تھا۔چنانچہ انہوں نے مل کر اس کے لئے نہر نکال کرآباکیا۔یہ تقریباً500سال پہلے کاواقعہ بتایا جاتا ہے۔ان میں ایک بھائی نے لومان دور کوآباد کرکے وہیں سکونت اختیار کی اور دوسرے بھائی نے لوٹ دور میں اپنا گھربسایا۔میرشکارے بھی یہاں قدیم سے آباد تھے۔باقی مختلف وقتوں میں مختلف جگہوں سے یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔اس جگے کانام معلوم نہیں کیسے رکھاگیا ہوگا بہرحال قیاس کیا جاسکتا ہے کہ جب قدیم ترین آباد کار یہاں آئے تو اُنہوں نے دیکھا ہوگا کہ یہ علاقہ جنگل ہونے کے علاوہ ہرطرف ہون کوٹی(سیلاب آوردہ مواد)اور ریشٹوں (سیل برف سے جمع شدہ مواد) جمع تھے۔زیادہ ترشاید رشٹون موجود ہوں گے۔کیونکہ ریشن گول میں گلیشیر ایڈوانس(Glacial advance)کا سلسلہ دوسرے گلیشیر زدہ علاقوں (glaciated areas) کی طرح ہمیشہ سے رہا ہے چنانچہ اسی مناسبت سے پہلے یہاں کے لئے رشٹون کا لفظ استعمال ہواہوگا۔اور بعد میں یہ بدل کے ریشون ہوا ہوگا۔(واللہ اعلم)یہاں کے قبیلے رضا،خوشوقتے اور کٹورے مستوج وغیرہ سے، خوشامدے لون سے،بروڑے بروز سے،افغانی دیر سے،سنگھے اوی سے،واخیکے واخان سے،محنت گاڑ ڑاسپور سے،بولژاوے میراگرام سے،کلاشے کلاشگرم سے آئے تھے۔بیگالے یاسین سے ہاشم بیگم خونزہ کے ساتھ آئے تھے۔بروشے،وزیربیگے اور بوباکے گلگت سے آئے تھے۔پانے اور ماژے تریچ سے اور زوندرے چترال کے مختلف حصوں سے آئے تھے۔ریشن کے ساتھ ایک چھوٹا گاؤں گریم لشٹ ہے۔اس گاؤں کانام پُرانا لگتا ہے جوگرام لشٹ سے ماخوذہوگا۔جیسا کہ ذکرہوا ہے گرام کالاحقہ اکثر ہند ودور سے تعلق رکھتے ہیں۔(آج کل اس کانام غیرسرکاری طورپر بدل کر گرین لشٹ استعمال ہورہا ہے۔جو غلط ہے)گریم لشٹ کے بارے ایک خصوصی بات یہ ہے کہ یہاں ایک شاہ صاحب ہیں جس نے اپنے خاندان کا شجرہ محفوظ رکھا ہوا ہے جسمیں اسکے خاندان والوں کا سلسلہ حضرت علی رضہ اللہ عنہہ تک چلاجاتا ہے۔یہ دنیا کے نادر اور نایاب شجروں میں سے ایک شمار ہوتا ہے۔دوباتوں کی وجہ سے ریشن تاریخ میں امرہوگیا ہے۔جنکی کی طرف مختصر اشارہ بے جانہ ہوگا۔ایک تو چترال کے مشہور صوفی شاعر محمد سیر کے رومان یارمن ھمیں (یایورمین ہمین)کی روایت۔دوسری انگریزوں سے چترالی مجاہدین کی جنگ اور محمد عیسیےٰ غازی کاکارنامہ۔

ریشن کے بالمقابل دریا کے پارشوگرام گاؤں آباد ہے۔ یہ گاؤں بھی قدیم دیہات میں سے آباد معلوم ہوتا ہے۔مارگن سٹین کے مطابق چترال میں جگہ جگہ شوگرام،شاگرام،شاگروم وغیرہ نام موجود ہیں۔ ان کی اصلیت ہندو دور سے ہے۔جب ہندولوگ مختلف دیہات جسے گرام کہتے تھے کے ساتھ اپنے ایک اہم دیوتا شیواجی کانام لگاتے تھے۔یہ ذکر برسبل تذکرہ پیش ہوا۔بہرحال موجودہ شوگرام میں محمد بیگے قوم آباد ہے جن کا تعلق شاہی خاندان سے ہے۔ (اس کا بعد میں بھی ذکرکیا جائے گا)۔محمد سیر کاتعلق اسی قبیلے سے تھا۔چترال کے لوگ عام طورپرمحمد سیر (جسے ماسیار کہتے ہیں) کو صرف ان کے مشہور گیت یورمان ھمین(یارمن ھمین)اور ان کے رومان کے حوالے سے جانتے تھے۔حالانکہ وہ ایک عالم فاضل انسان تھے۔اور فارسی میں ان کا دیوان موجود تھا جسے خوش قسمتی سے حال کے زمانے میں مولانگاہ مرحوم نے ترجمہ کرکے اور مقتدور قومی زبان اسلام آباد سے شائع کراکے دنیا سے متعارف کرایا۔محمدسیرمرحوم کے رومان کے بارے ایک ریڈیائی ڈرامہ کھوار زبان میں لکھا گیا ہے۔جسے کھوار پروگرام سے نشر کیا گیا تھا۔ریشن کے حوالے یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریشن محمدسیر کی محبوبہ کاگاؤں تھا اور ریشن کاذکر یورمن ھمین میں انہوں نے یوں کیا ہے۔ [یشنو بوم رنگ گنی شیرمہ خوشو لعل شوناری]۔

انگریزوں کے خلاف 1895ء کی جنگ کی نہایت متحرک شخصیت محمد عیسےٰ تھے۔چترال سے لیکر ریشن،نسرگول اور چکلواخت ہرمحاذپروہ موجودنظر آتے ہیں۔مشکل مقامات پرپہاڑوں پرمورچے اور سنگر بنوانا،لشکروں کی تربیت،حالات کے مطابق ان کی تشکیل جیسے اہم امور کی انجام دہی میں نہایت ماہرانہ اندازمیں مصروف نظرآتے ہیں۔یہاں تک ایک انگریزمصنف (تھامسن)ان کی جنگی عملیوں کی تعریف کئے بغیرنہیں رہتا اور یہ تسلیم کرتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہم سے ان کو ہزیمت اٹھانی پڑی ورنہ مقامی حالاتکے مطابق ان کی طرف سے تیاری میں یا مقابلے میں کسی طرح بھی کمی نہیں تھی۔محمدعیسےٰ کی جنگی عملی کو اسلئے بھی سراہا جاتا رہا ہے کہ نہایت پراشوب حالات میں بھی اس نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کاتصوربھی نہیں کیا۔جب انگریزاپنی طاقت کے بل بوتے پرجنگ مین کامیاب بھی ہوئے تب بھی محمد عیسےٰ ان کے ہاتھوں سے نکل کے تانگیر کے یاغیستان میں پناہ لینے اور انگریزوں کے خلاف محاذبنانے کے عمل میں مصروف ہوچکا تھا۔

ریشن کے پولوگراونڈ کاواقعہ جسکا یہاں ذکر مقصود ہے۔یوں پیش آیا۔ انگریزوں کی فوج کاایک مختصر دستہ چترال میں محصور فوجوں کی کمک میں سامان کے ساتھ ریشن سے گذرتے ہوئے یہاں مجاہدین کے ہاتھوں محصور ہوگیا تھا۔اسی دوران چترال سے محمد عیسےٰ بھی ریشن پہنچ گیا تھا۔حالات ایسے ہوئے تھے کہ وقتی طورپر تین دن کے لئے صلح ہوگئی اور صلح نامے کے تیسرے دن محمد عیسےٰ نے انکوپولو میچ کھیلنے کی دعوت دی۔پولو میچ جب ختم ہوا اور جب انگریزفسران اُٹھ کے جانے لگے توحالات ایسے ہوگئے کہ جنگ کاسمان بن گیا۔محمد عیسےٰ دوانگریزوں کے درمیان کھڑاتھا۔اُنہوں نے دونوں کو اپنے ہاتھوں میں جکڑکے گرفتار کرلیا۔اسوقت انگریزوں کی گریژن کی طرف سے زبردست فائرنگ ہوئی اور کئی مجاہدین شہید ہوگئے اور مجاہدین نے ان کے قیام گاہ پرقبضہ کرکے ان کے کئی سپاہیوں کو تلواروں پر لیا دوسکھ سپاہیوں نے گرفتاری سے بچنے کے لئے خودکشی کرلی۔”انگریزافسران کانام لفٹننٹ فولر اور لفٹننٹ ایدورڈتھے۔جنکو عمرا خان کے پاس بھیجدیاگیا“۔اس واقعے میں محمد عیسےٰ کی طاقت کاجومظاہرہ ہوا وہ یادگار ہے۔(تفصیل پڑھیں ایچ سی تھامسن کی کتابChitral Campaignجسکا ترجمہ چترال کے ساتھ انگریزوں کے جنگ کے نام سے راقم نے کیا ہے۔(باقی آیندہ)۔

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!