Nazir Hussain Shah

باپ کی جدائی

میں جب ماحول میں تیری کمی محسوس کرتا ہوں
تھکی آنکھوں کے پردے میں نمی محسوس کرتا ہوں
خیالات اورالفاظ جتنے بھی حسین بامعنی اوراخترام سے بھرے ہوئے ہووالد محترم کی جدائی کاغم قلم کی گرفت میں نہیں آسکتا اوردرددل کی وضاحت میرے لئے ناممکن ہوتی جاتی ہے دل میں ایک غباراُٹھتا ہے اس غبارکو کاغذ پرمنتقل کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگردل کی طوفان کا لہرکاغذ پرکہاں آتی ہے وہ سمندرکے بہاوں کی طرح کبھی سرسے گزرتی ہے کبھی چٹانوں سے ٹکراکرواپس آتے ہیں۔ اگرحقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے زندگی چیزوں اورسہولتوں کا نام نہیں بلکہ زندگی احساسات، جذبات اوراْلجھنوں کا نام ہے، اگرچہ زندگی بہت کچھ پا کرکھونے کا نام ہے مگرکبھی کبھی جذبات والد کی جدائی پرآنکھوں کوپانی پانی کردیتے ہیں۔

موت ایک اٹل حقیقت ہےاس حقیت سے کوئی انکارنہیں کرسکتا۔ جب والد محترم کے جدائی کی گھڑی قریب آگئی میرے پاؤں تلے زمین نکل رہی تھی میرے انکھوں کے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا ہورہا تھا میری بے بسی اْس لمحے عروج پر تھی، مجھے کچھ ہوش نہیں تھا۔ پھرمیرے کانوں میں آواز سنائی دی ”اناللہ وانا الیہ راجعون۔“ میں نے والد محترم کا چہرہ دیکھا۔ اتنا اطمینان، اتنا سکون، اتنی معصومیت ان کے چہرے پر تھی جیسے کوئی بچہ سکون کی نیند سورہا ہو۔
یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بھر کے دْکھ عابی
سنا ہے باپ زندہ ہوتو کانٹے بھی نہیں چبھتے
قبلہ گاہ، ابوجی، باپ، والد اورجس نام سے بھی یاد کیا جائے توایک ایسی شخصیت کا روپ سامنے آتا ہے جواپنے اولاد کے لیے شفقت، پیار اور تحفّظ کی سب سے بڑی علامت ہے۔ باپ اولاد کی تربیت سے کبھی غافل نہیں ہوسکتا۔ اْس کی اوّلین خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنے کے ساتھ اْسے بہترین زیورِ تعلیم سے بھی آراستہ کرے۔ باپ اللہ کی ایک عظیم ترین نعمت ہے، خوش نصیب اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں یہ عظیم نعمت میسر ہے۔ باپ ایک سایہ دار درخت ہے جس کے سایہ میں بچے محفوظ ہوتے ہیں، ہرغم اور ہرستم سے آزاد ہوتے ہیں، نہ فکر ہوتی ہے اور نہ ہی کسی کا ڈر، باپ حوصلہ ہوتا ہے ایک ایسا حوصلہ جو صرف اور صرف باپ کے ہونے تک ہی ہوتا ہے۔
آف خدایا۔۔۔۔آج سے چند دن قبل 10دسمبر2020 بروزجمعرات بوقت تین بجے جب میں اِس حوصلے، اِ س سائے سے اوراِس عظیم ترین نعمت سے محروم ہوگیا۔ جب مجھ بدنصیب کے سر پرآسمان ٹوٹ پڑا، پاؤں تلے زمین نکل گئی، یہ وہ سیاہ شام تھی میرے لئے جب میرے والد محترم اس فانی دنیا سے رخصت فرماکرمالک حقیقی سے جاملے۔ زندگی جہاں بہاریں ہی بہاریں تھیں، وہاں اک ایسی خزاں نے ڈھیرا ڈالا کہ خوشیاں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے روٹھ گئیں، یوں میرے خوشیوں اورمسرتوں کی کھلکھلاتی رنگینوں میں مست معصوم سی زندگی پر ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اس وقت والد محترم کی وفات میرے لئے ایک چیلنج بن کر سامنے آگئی۔

زندگی یقیناً اِک عارضی ٹھکانہ ہے کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں ان کی موت کا صدمہ واقعی ایک امتحان ہوتی ہے، اِس کا مجھے شدت سے احساس ہوا، ایک طرف کٹھن حالات تو دوسری جانب معاشرے کی مصنوعی تسلیاں، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ زندگی کو کس طرح بسر کیا جائے۔ موت کے فرشتے نے سر سے والد کا سایہ چھین لیا۔ زندگی کا سفربلاشبہ نہ سمجھ میں آنے والاہے، زندگی کاہرایک پل نایاب ہوتا ہے۔
زندگی میں وہ دن کبھی نہیں بھولایا جائے گا جب کوئی محبت کرنے والا جدا ہوا ہو۔ والد کا رشتہ ماں کے بعد تمام انسانی رشتوں میں مقدس اور اعلیٰ تصور کیا جاتا ہے۔ باپ ایک ایسا درخت ہے جو آگ اور دھوپ کو خود برداشت کرتا ہے لیکن اپنی اولاد کو سخت ترین گرمیوں میں بھی ٹھنڈک اور راحت فراہم کرتا ہے۔ میرے والد کا شمار بھی ایسے ہی عظیم لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک اپنی اولاد کی تربیت اور محبت کے لئے وقف کیا تھا۔والدکی زندگی میں اولاد معاشرے کے رسم رواج کے بندھن سے آزادہوتے ہیں باپ خود بھوکارہ کر اولاد کی پیٹ پالنے میں دن رات ایک کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ والدکی شفقت بھری ایک نظر اولاد کویک دَم تر و تازہ کر دیتی ہے۔ تواس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ باپ کا وجود، اولاد کے لیے زندگی میں بڑی حوصلہ دیتی ہے۔ باپ کارشتہ اْن کے چلے جانے سے ٹوٹ نہیں جاتا۔ وہ اس دنیائے فانی سے جانے کے بعد بھی ہم سے وابستہ رہتے ہیں۔اُن کی نیک دعائیں ہمیشہ ہمارے پاس ہوتے ہیں۔

ہرباپ کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے کو اعلیٰ سے اعلیٰ معیار زندگی فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکے اور معاشرتی ترقی میں بہتر طور پر اپنا کردار ادا کرسکے۔
مجھ کو چھاؤں میں رکھا خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا ہے ایک فرشتہ باپ کے روپ میں
والد محترم نے اپنے عمرکے تقریباً 55سال علاقے کے ترقی، سماجی اورفلاحی خدمات میں گزارے ہیں جس کی وجہ سے وادی یارخون کے مکین اُن کی جدائی کوعلاقے کے لئے ناقابل تلفی نقصان قراردیتے ہیں۔ والد محترم کواللہ تعالیٰ نے بہت ساری نعمتوں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ عاجزی اورانکساری کی بہت بڑی دولت عطاء کی تھی۔ انہوں نے پوری زندگی غم زدہ انسانوں کی دل جوئی میں گزارا اس لئے سارا علاقہ اُن کی بے وقت موت کی وجہ سے غم زدہ ہیں۔ والدصاحب علاقے کودرپیش بنیادی مسائل کے حل کے لئے پیش پیش رہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے۔اُن کے جدائی کے غم میں وادی یارخون کے چھوٹے بڑے،مردعورت سب اشکبارنظرآتے ہیں۔میں اُن سب کا مشکورہوں جنہوں نے دن رات والدمحترم کی تعریف کرتے کرتے میرے اورمیری اہل خانہ کے دل بہلاتے ہیں۔
بے نور سی لگتی ہے اس سے بچھڑ کے یہ زندگی
زید اب چراغ تو جلتے ہیں مگر اُجالا نہیں کرتے
10دسمبر2020ء کومیرے والدمحترم ہم سے بچھڑگئے مگران کی یادیں اوراُن کی جدائی کادردآج بھی تازہ ہے۔ اُ ن کی محبت اورشفقت سے بھرے ہوئے ہرالفاظ کانوں میں گھونجتی ہے اس درد بھرے دل کوکبھی آنسوؤں کی طوفان میں بہاتے ہیں کبھی خشک صحر اکے دھوپ میں جلاتے ہیں۔ والد مرحوم کی کمی کے باعث میری خوشیاں، میری دنیا اور میرے دل کی مسکراہٹ والد صاحب کیساتھ منسلک تھی، لیکن اْن کے جانے کے بعد تمام تر مسرتیں، رعنائیاں کھوگئیں،سب ویران پڑگیا۔ والد محترم گھرکی تمام رنگینوں کواپنے ساتھ ہی لیکر گئے۔
اگرچہ یہ دنیا عارضی ہے او راس کو سب نے ایک نہ ایک دن چھوڑنا ہی ہے۔ لیکن بعض اوقات کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جن میں والد خاص طور پر شامل ہیں ان کی اچانک جدائی کا سوچ کر سب کچھ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔ لوگوں کی زبانی یہ سن کر مجھے خوشی ہوتی ہے کہ میں ایک ایسے باپ کا بیٹا ہوں جس نے اپنی محنت، لگن، شوق، دیانت داری اور وفاداری کے ساتھ ساتھ اپنے قائم کردہ اصولوں، خیالات، سوچ، فکر، اخلاقی معیار کو برقرار رکھتے ہوئے ایک بھر پور زندگی گزاری ہے اور اس کا عملی اعتراف علاقے کے ہربچہ بچہ سبھی کرتے ہیں۔
اس وقت میں اپنے آپ کوتنہا اوراداس محسوس کرتاہوں مگرمیں ذاتی طور پر آج جو کچھ ہوں، جو عزت کمائی، شہرت ملی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی فضل کرم اور میرے والد کی محنت اوردعاوں کانتیجہ شامل ہے۔ میرا سرفخرسے بلند ہوتاہے جب لوگ شاندار الفاظ میں میرے والد کی خدمات، شفقتوں اور محبّتوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں وہ ایک درویش انسان تھے۔ پورے علاقے میں ان کی حیثیت ایک بزرگ کی تھی۔ میری سب سے التجاء جن خوش بخت لوگوں کے والد ابھی تاحیات ہیں، وہ اْن کی قدر کریں،اْن کی خدمت کریں،اْن کی فرمانبرداری کریں، اْنکو ہر حال میں خوش رکھیں۔اللہ تعالی والدمحترم کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے آمین۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest