چترال (خصوصی رپورٹ) چترال کی ترقی کے لئے حکومت ناروے کے امداد سے شروع کیا جانیوالا چترال انٹگریٹڈ ڈویلپمنٹ پروگرام (CIADP) بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا ۔ تفصیلات کے مطابق اگلے سال سے یہ پراجیکٹ چترال میں کوئی کام نہیں کر سکے گی۔ اس پراجیکٹ کے چترال کے تحت مختلف یونین کونسلوں میں وسیع پیمانے پر ترقیاتی اسکیمیں شروع کئے گئے، سرکاری اداروں کی استعداد کار بڑھانے میں تعاون بھی فراہم ہوئی تاہم باوجود اس کے یہ پراجیکٹ مختص شدہ رقم خرچ کرنے میں ناکام رہی۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ تھرائیو (THRIVE)نامی ایک گرانٹ منجمنٹ کمپنی کے ذریعے اس اہم ترین پراجیکٹ کو چترال میں چلانے کا عمل کامیابی سے ہمکنا ر نہیں ہو سکا جسکا ثبوت یہ ہے کہ مبینہ طور پر نارویجین حکومت کے مہیا کردہ گرانٹ میں سے 50کروڑ روپے کی کثیر رقم خرچ نہیں کی جاسکی جو کہ چترال جیسے پسماندہ ضلع کے لئے بد قسمتی کے سوا کچھ نہیں۔ چترال کے کئی دیہات اور یونین کونسل ایسے بھی ہیں جہاں کے لوگ پچھلے پانچ سالوں کے دوران CIADPکے دفتر کے چکر لگاتے رہے مگر چترال کے حالات سے بے خبر اورشراکتی ترقی کے مسلمہ اصولوں کو رد کرنے والے گرانٹ منجمنٹ فرم نے غریب لوگوں کی حالت زار بدلنے پر توجہ دینے کے بجائے اس ادارے کو ایک رورل بیوروکریسی کے طرز پر چلا یا جسکی وجہ سے چترال کے لئے منظور ہونیوالے خطیر رقم یہاں پر غربت کے خاتمے اور لوگوں کے حالات زندگی بدلنے پر خرچ ہونے کے بجائے واپس ہوئے۔اس پراجیکٹ کے تحت تقریبا 14یونین کونسلوں کے لگ بھگ 200گاؤں میں مختلف اسکیمیں کی گئیں، مختلف شعبوں میں مرد اور خواتین کو تربیت بھی فراہم کی گئی۔ با خبر ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ چند مہینے قبل اس پراجیکٹ کے حوالے سے اسلام آباد میں ایک میٹنگ میں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے بھی ڈونر ایجنسی کو واضح بتایا گیا کہ اس پراجیکٹ کے توسیع کی صورت میں ایم او یو از سر نو سائن کیا جائے۔ اس پرا جیکٹ کے چترال کو وسیع تر ، پائیدار اور مستقل بنیا دو ں پر فائدہ پہنچنے کے بجائے وقتی طور پر کچھ فائدہ پہنچ سکا مگر اگر حقیقت پسندانہ طور پر دیکھا جائے تو چترال جیسے پسماندہ علاقے کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ۔
چترال کے نوجوان بیروزگار ہوئے، چترال کے وسائل ضائع ہوئے اور پراجیکٹ کے مقاصد بھی حاصل نہیں کئے جا سکے۔ تاہم اس پراجیکٹ سے منسلک ایک ذمہ دار اہلکار کا کہنا تھا کہ 50کروڑ روپے لیپس ہونے کی خبر شائد درست نہ ہو کیونکہ ڈونر کی طرف سے ہمیں سالانہ کے حساب سے فنڈ ملتے تھے اور ایک سال کے پراجیکٹ مکمل کرنے پر اگلے سال کے پراجیکٹس کے لئے پیسے ملتے تھے۔ اس پراجیکٹ کے اثاثہ جات بالخصوص گاڑی وغیرہ کے حوالے سے بھی ابہام ہے کہ آیا یہ اثاثہ جات ضلعی انتظامیہ کے حوالے ہونگے یا گرانٹ منیجرفرم کی ملکیت ہونگے۔ تھرائیو کے ساتھ کام کرنیوالے معاون اداروں نے مشترکہ طور پر گذشتہ روز پریس کانفرنس کرکے انکشاف کیا کہ اس ادارے کے 50کروڑ روپے سے زائد رقم خرچ نہیں کئے جاسکے جو کہ یقیناًچترال جیسے پسماندہ ضلع کے ساتھ نا انصافی ہے۔