شیر جہان ساحل
نصف صدی پہلے چترال میں صرف تین ہائی سکول تھے، یعنی ہائی سکول چترال، دروش اور بونی۔ ان میں سے ہائی سکول چترال میں پرنسپل کے علاوہ ایک یا دو بی اے بی ایڈ ٹیچر شاید تھے باقی دو اسکولوں میں صرف پرنسپل بی اے بی ایڈ ہوا کرتا تھا۔ ہائی سکول چترال میں محترم فضل الدین صاحب ہمارے وائس پرنسپل تھے۔ نویں میں جناب غلام عمر مرحوم ہمارے پرنسپل رہے جب کہ دسویں میں محترم وقاراحمد صاحب مرحوم ہمارے سربراہ مدرسہ رہے۔ پہلی دفعہ 1965 کے وسط یا آخر میں سردار احمد ( ریٹائرڈ اے سی) اور غلام یحیٰ صاحب بی ایس سی بالترتیب ایس ای ٹی جنرل اور سائنس کی پوسٹوں پر بھرتی ہو کر آئے تھے۔ اس سے پہلے نویں اور دسویں جماعتوں کو اسکندر حیات صاحب میٹرک سی ٹی سائنس کے مضامین پڑھاتے تھے جبکہ پرنسپل اور وائس پرنسپل انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔ اساتذہ کی بڑی تعداد مڈل جے وی اساتذہ پر مشتمل تھی جبکہ چند ایک میٹرک یا ایف اے سی ٹی تھے، جیسا کہ میر فیاض صاحب، نور علی شاہ صاحب اورحسین اللہ صاحب جنہوں نے ہمیں دوسرے مضامین پڑھائے۔ مڈل سکولوں میں سی ٹی استاد ہیڈ ماسٹر ہوا کرتا۔ مختصر بات یہ ہے کہ اعلی تعلیم یافتہ افراد کے اس فقدان کے زمانے میں یک نئی خبر سننے میں آئی کہ چترال کا ایک نوجوان ‘لندن پاس’ کرکے آئے ہیں۔ یہ اتنی موٹی خبر تھی کہ ہم جیسے لڑکوں کے لیے نا قابل یقین تھی۔ اب تک ہم نے ایک چند شہزادوں کے بارے سنا تھا کہ انہوں ایم ، ایم ایس کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ عام لوگوں کے بچوں کے بارے میں ایسا سوچنا بھی احمقانہ لگتا تھا۔ لیکن بات سچی تھی۔ اس بارے میرے بابا بھی کافی عرصہ پہلے مجھے بتایا تھا کہ “سنگورو چھیربرارو ژاؤ لندان پاس کوری گیتی اسور” ( سینگور کے رضاعی بھائی حکیم محمد جو ناصرالملک کے رضاعی بھائی تھےکا بیٹا لندن میں پڑھ کر آیا ہے)۔ یہ غالباً 1962 یا 1963 ہوگا کہ میرے بابا کی ان سے ملاقات ہوئی تھی جب اسرار الدین صاحب اپنی ریسرچ کے سلسلے میں وادی یارخون کا دورہ کیا تھا۔ اس لندن پاس شخصیت کے ساتھ ملاقات کا شوق ستا رہا تھا اور ماضی قریب میں ایسا کوئی موقع بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ پھر ایک دن اللہ نے یہ موقع بھی فراہم کردیا۔ میں نے جب فرسٹ پوزیشن اور ڈویژن میں میٹرک کیا تو میرے ابو کے پاس مجھے آگے پڑھنے سے روکنے کا جواز ختم ہو گیا ورنہ ان کے نزدیک میٹرک پاس ہونا کافی تھا اور مجھے کہیں ملازمت حاصل کرکے بابا کا ہاتھ بٹانا تھا۔ 1966 میں میٹرک پاس کرنا بھی بڑا کارنامہ تھا۔ نوکری آسانی میں ملتی تھی ۔ کچھ میری پوزیشن کی بدولت اور کچھ عزیز رشتے داروں کی تاکید کےسبب بابا نے مجھے کاج بھیجے کا فیصلہ کیا۔ میرے چچا مرحوم میر صاحب خان میرے ساتھ چترال روانہ ہوئے۔ بابا نے چچو کو تاکید کی کہ وہ سنگورو چھیربرارکے بیٹے کے ساتھ ضرور ملاقات کرے تاکہ میرے داخلہ کے بارے وہ مدد دے سکے۔ جب چترال پہنچ کر معلوم کیا تو اسرارالدینؔ صاحب موسم گرما کی تعطیلات پر گھر آئے ہوئے تھے۔ دوسرے دن چچا میر صاحب خان اکیلے ان کو ملنے گیے کیونکہ مجھے اپنا سرٹفیکیٹ سکول سے حاصل کرنا تھا۔ چچا جب واپس آیا تو ان کے ہاتھ میں ایک بند لفافہ بھی تھا جو اسرار صاحب نے ایگریکلچر انسپکٹر سردار صاحب کو لکھا تھا۔ اگلی صبح چاچا میر صاحب خان تو میرے ساتھ نہ آسکے۔ ان کی جگہہ محترم استاد حاجی خان صاحب اف مستوج مجھے لے کر پشاور روانہ ہوئے۔ حاجی خان صاحب رشتے داری کے علاوہ مڈل سکول مستوج میں میرے استاد بھی رہ چکے تھے اور اس موقع پر چترال میں کسی کام کے سلسلے میں موجود تھے۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر میرے ساتھ پشاور چلنے اور کالج میں داخلے کے معاملامت نمٹانے کے لیے وقت دیا۔ چچا میر صاحب خان پڑھے لکھے آدمی نہیں تھے اور ان کی واقفیت بھی سوات چکدرہ تک تھی۔اس سے پہلے کبھی پشاور نہیں گئے تھے، اس لیے وہ حاجی خان صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئےخوشی خوشی گھر واپس ہوئے اور ہم بذریعہ پی آی اے پشار اترے۔ سردار صاحب سے ملاقات ہوئی۔ خط پہنچایا تو انہوں نے میرے داخلے سے متعلق سارے کام نمٹا دیے۔ موسم گرما کی تعطیلات ختم ہوتے ہی ہم نے پروفیسر اسرارؔ سے ملنے کا پروگرام بنایا اور ان کے آفس پہنچ گئے۔ پشاور یونیورسٹی کے جغرافیہ ڈیپارٹمنٹ میں ایک ایسے حسین و جمیل جوان سے ملاقات ہوئی کہ میں بس دیکھتے ہی رہ گیا۔ جتنا ظاہری حسن تھا اس سے کئی گنا ان کا اخلاقی حسن تھا۔ ہم سے ایسا ملے گویا ہم کوئی بڑے آدمی تھے، حالانکہ کچھ عرصہ پہلے اسلامیہ کالج کے ہمارے سینیئرز نے فرسٹ ایر فولنگ کے نام پر ہمارا وہ حشر نشر کیا تھا کہ ہم اپنے کالج پڑھنے کے فیصلے کو کوس رہے تھے۔ شرمیلا سا یہ جوان ہمارے اسرارؔ صاحب تھے جن کا شرمیلا پن اور شرافت کی انتہا ہنوز قائم ہے۔ ہمارا بھی جوانی کا آغاز تھا اور خود کو خوبصورت جوانوں میں شامل سمجھ رہا تھا لیکن اسرارؔ صاحب کے سامنے خود کو بھی بہت ہی بد صورت پایا۔ اس لمحے سوچ میں پڑ گیا کہ یہ صاحب اپنی جوانی کو صنف مخالف کے تیروں سے کیسے بچا رہے ہوں گے؟ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی بھی خوبصورت لڑکی اسرارؔ کو نظر انداز نہیں کرسکتی تھی۔ خیر! یہ تو اس عمر کے لڑکوں والے خیالات تھے۔ ہمارے پروفیسر صاحب نے نہ صرف اپنا حسن بچائے رکھا بلکہ چترال سے تعلق رکھنے والے ہر لڑکے اور لڑکی کے بڑے بھائی اور باپ بن کر سرپرستی اور رہنمائی کی اور ان کے جملہ مفادات کی حفاظت کی۔ طلبہ کے اجتماعی اور انفرادی مسائل حل کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ یونیورسٹی سے فارغ طلبا بھی ضرورت پڑنے پر ان کے در پر ہی حاضر ہوتے رہے ی
ہاں تک کہ جب 1979 میں ہم پبلک سروس کمیشن کا امتحان دے رہے تھے تو ریفرنس بکس کی تلاش میں ان کے ہاں پہنچ گئے اور ضروری کتابیں حاصل کیں۔ ہم جب اور جس وقت بھی ان سے ملے، چاہے ان کے آرام یا قیلولے کا وقت ہی کیوں نہ ہو ہم نے اسرار صاحب کی پیشانی پر کبھی ناگواری نام کی کوئی چیز نہیں دیکھی۔ اسرار صاحب چترال کے پہلے یونیورسٹی ٹیچر اور پروفیسر ہیں جو اپنے ڈیپارٹمنٹ کے چیرمین کی حیثیت سے دو تین ٹنیور خدمات انجام دیں۔۔ پروفیسر اسرارؔ صاحب اپنے پیشہ ورانہ فرض نبھانے کے ساتھ ساتھ چترال سٹوڈنتس ایسوسیشن کی سر پرست بھی رہے اور چترالی طلبہ کی اس تنظیم کو ایک پہچان عطا کی۔ انہی کی کوششوں کی بدولت چترال سٹوڈنٹس ایسو سی یشن نے رسالہ تریچمیر نکالا جو آج بھی تحقیقی حولے کی ایک آہم دستاویز ہے۔چترالی طلبہ کی اس تنظیم کے ذریعے سے چترالی طلبا کے سینکڑوں اجتماعی مسائل حل کروائے۔ ریڈیو پاکستان پشاور سے کھوار پروگرام کے اجرا اور ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ کھوار زبان و ادب کی ترویج اور چترالی ثقافت کی ترقی و حفاظت میں پیشرو کا رول ادا کیا اور اب بھی ان کی خدمات جاری ہیں۔ 2012 میں مہتر چترال سر محمد ناصر الملک کی زندگی کے حالات قلمبند کرکے چترال کی تاریخ کے آہم گوشوں سے ہمیں روشناس کرایا ہے ۔یہ ان کی بہت بڑی خدمت ہے۔ سیکنڈ ہندوکش انٹرنیشنل کلچرل کانفرنس کی روداد کو کتابی صورت دینا ان کا ایک اور کارنامہ ہے ۔ پروفیسر صاحب شاعر بھی ہیں۔ ان کی نظموں کا مجموعہ چھپ چکا ہے۔ انکی کئی کتابیں چھپ چکی ہیں اور بہت ساری زیر تصنیف و تالیف ہوں گی۔ ہمارے اس خاموش طبع محسن کا یہ مختصر تعارف اس لیے ضروری تھا کہ ہمارے آج کے جوانوں کو اپنی سرزمین کے عظیم علمی و ادبی پیشرو شخصیت کے بارے تھوڑی سی واقفیت حاصل ہو جائے۔ ان کی زندگی پر لکھنے کے لیے لمبا وقت اور وسیع علمیت کی ضرورت ہے جو اس وقت میرے پاس نہیں ہیں۔
Aseer sahib has very truly portrayed the towering personality of Professor Israrud Din (Sir). Being one of his admirers, I would quote one of the stanzas of a ghazal of Professor Israr (Sir) to express my happiness:
E MAHFILA KIA WAT KI KHOSHO LU HOI
TU HAS RES KI MA HARDIA SHINJUR ISPRU HOI
Sormo Qadro Zargar Hush Koi