دھڑکنوں کی زبان
محمد جاوید حیات
کہتے ہیں زہریلے کیڑے مکوڑوں کا زہر کہیں نہ کہیں ضرور ہوتا ہے۔ کوئی ڈنگ مارتا ہے، کوئی دانتوں سے کاٹتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ انسان بھی بڑا زہریلا ہوتا ہے۔ اس کا زہر اس کی زبان پر ہوتا ہے۔ وہ ایسے زہریلے الفاظ استعمال کرتا ہے کہ یہ الفاظ انسان کے دل و دماغ کو مفلوج کر دیتے ہیں۔
یہ گھریلو جھگڑے، یہ خودکشیاں، یہ نافرمانیاں اکثر اسی زہر کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ گھر کے اندر، ساس یا ماں شکایت کے انداز میں ایسے الفاظ استعمال کرتی ہے جو بہو کو توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ شکایت آمیز گفتگو انسان کو تباہ کر دیتی ہے۔ گھریلو امور میں تنقید، بے جا شکایات، اپنے بچوں کی ضرورت سے زیادہ تعریف، بیٹے کے کان بھرنا، غلط فہمیاں پیدا کرنا — یہ سب کچھ انسان کو تھکا دیتا ہے۔
دورِ جدید ہے، زندگی رنگین ہو چکی ہے۔ لوگ حقیقت کو چھوڑ کر رنگینیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ان رنگینیوں سے محرومی بے چینی پیدا کرتی ہے۔ لوگ جنونیت کا شکار ہو چکے ہیں۔ ایک مایوسی اور عدم توازن کا ماحول ہے۔ ایسے ماحول میں حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، مقابلے کی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
معاشرے میں کچھ لوگ زہر پھیلانے اور دوسروں کو ڈسنے کو اپنا پیشہ بنا چکے ہیں۔ یہ لوگ \”بی جمالو\” کی مانند ہوتے ہیں — کوشش کرکے بدگمانیاں اور افواہیں پھیلاتے ہیں، فساد برپا کرتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ قرآنِ عظیم الشان نے بدگمانی، تہمت، الزام، غیبت، چغلی اور بہتان سے کس قدر سختی سے منع فرمایا ہے۔ معاشرتی بگاڑ کی وجوہات بیان کرکے قرآن نے معاشرتی اصول و اقدار متعین کیے ہیں۔ انہی زہریلے لوگوں سے پناہ مانگنے کی تاکید آئی ہے۔ انہیں \”آستین کے سانپ\” کہا گیا ہے۔ ان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے۔
زہریلے لوگ دوسروں کو ڈس کر لذت حاصل کرتے ہیں۔ یہ اکثر نند، نندوی، سالے، سالی، جیٹھ، سوکن، پھوپا، بھابھی، بھاوج، مسمدی، نواسی وغیرہ کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ ان سے چھٹکارا آسان نہیں ہوتا۔
زہریلے لوگوں سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انہیں زہر ہی سمجھا جائے، اور ان کے ڈسنے سے پہلے کوئی تدبیر اختیار کی جائے۔ آج کل کے چکاچوند دور میں موبائل فون اس زہر کو پھیلانے میں ایک مؤثر آلہ بن چکا ہے۔ ہم نادان اس کو محفوظ سمجھتے ہیں، اسے رازدان سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ ایک جاسوس کا کردار ادا کرتا ہے۔ اسی کی وجہ سے معاشرے میں کئی تباہیاں جنم لیتی ہیں۔
انسان کو اکثر اپنی اصلاح کا خیال نہیں آتا۔ اسے اپنی غلطی نظر نہیں آتی۔ وہ اپنی سوچ اور سرگرمیوں پر غور نہیں کرتا کہ اس سے دوسروں کو تکلیف ہو رہی ہے یا راحت۔ اگر ایسی سوچ پیدا ہو جائے، تو یہی زہریلا انسان شہد کی طرح میٹھا، ریشم کی طرح نرم اور سودمند محسوس ہونے لگتا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔
معاشرہ مخلص اور عظیم لوگوں سے قائم رہتا ہے، زہریلے لوگوں سے نہیں۔ زہریلے لوگ زہر پھیلاتے اور ڈستے رہتے ہیں۔
اللہ کے نبی ﷺ سے صحابہ کرامؓ نے پوچھا
\”یارسول اللہ ﷺ! ہمیں کیسے پتا چلے کہ اللہ ہم سے محبت کرتا ہے؟\”
آپ ﷺ نے فرمایا: \”جب لوگ تم سے محبت کرنے لگیں گے۔\”
لوگ تبھی محبت کرتے ہیں جب ان سے محبت کی جائے، ان کا احترام کیا جائے، وہ آپ کے اخلاص کو محسوس کریں، آپ پر اعتبار کریں اور آپ کو اپنا ہمدرد سمجھیں۔
زہریلے لوگ حقیقت ماننے سے انکاری ہوتے ہیں۔ دوسروں کی کامیابی انہیں کھٹکتی ہے۔ وہ کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتے۔ دوسروں کی کامرانیاں انہیں ہضم نہیں ہوتیں۔ ان کی فطرت بدلتی نہیں، حالانکہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کی مدد کرکے، انہیں خوشیاں دے کر خوش ہو جاتے ہیں۔
زہریلے لوگوں کی دوستی اور دشمنی کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے، اور ان پر اعتبار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ یہ دعا ضرور کی جا سکتی ہے کہ \”اللہ ہمیں ان کے شر سے محفوظ رکھے۔\”

