سائنس سے کوئی خاص شغف نہیں رکھتے بس اتنی سی آگاہی کافی سمجھتے ہیں جس سے دل کی تشفی ہوسکے۔ کون مجھ جیسے فضول شخص کو مریخ بھیجے گا۔ غلطی سے مریخ پہنچ بھی گئے تو مریخ دھرتی پر بھی بوجھ ہی ہوں گے۔ اس لئے وسائل کو ضائع کرنے کے بجائے ہم جیسوں کا زمین پر بوجھ بنے رہنا ہی مناسب ہے۔ یہی غیر مناسب خیال ہمیں سائنس سے ہمیشہ بچا کے رکھتا ہے۔ شکر
البتہ دو اقوال بہت پسند ہیں جو ہمارے مذکورہ خیال کو تقویت فراہم کرتے ہیں۔
جون ایلیا صاحب فرماتے ہیں ہم گزشتہ کئی صدیوں سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے علاؤہ کچھ نہیں کررہے ہیں۔
اس قول کی مناسبت سے اقوام عالم کی جب تاریخ لکھی جائے گی تو ہمارے والے صفحہ پر صرف حرام خور لکھنا کافی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اتنی عزت اور شہرت دی ہے کہ اس ایک لفظ سے آنے والی کئی نسلیں سمجھ جائیں گے کہ تاریخ کا حرام خور کون ہے۔ ہے نا عزت افزائی کی بات۔
دوسرا قول فرہاد یوسفی صاحب کا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم گزشتہ کئی صدیوں سے آکسیجن کو کاربن ڈائی آکسائڈ میں تبدیل کرنے کے علاؤہ کیا کارنامہ سر انجام دے رہے ہیں جو دنیا ہماری قدر کرے۔
ہم نے ان سے بارہا پوچھا کہ یہ “ہم” سے کیا مراد ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ ہر شخص”ہم” کا ترجمہ اپنے اپنے کردار اور کارکردگی کے حساب سے کرے۔
یہ سب بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ دنیا سے ہماری شکایت رہی ہے کہ مختلف ادویات، علاج معالجے، کیڑے مار ادویات اور خوراک کے دستیاب ذرائع کے ذریعے ہمیں بانجھ بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ مگر شکایت کنندگان اس کا علاج نہیں بتا رہے ہیں۔
ہماری نظر میں اس کا صرف ایک علاج ہے۔ ہم دسترخوان کی حرام خوری اور آکسیجن کو کاربن ڈائی آکسائڈ بنانا بند کرکے دنیا کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرنا شروع کریں چاہے وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو۔ دنیا ہمارے سارے گناہ معاف کردے گی۔ ورنہ دھرتی کا بوجھ خالق برداشت نہیں کرتا مخلوق کیونکر برداشت کرے۔

