sher wali khn aseer

ہمارے بے نام پیروز

شیر ولی خان اسیر

ہمارے معاشرے میں ایسے افراد موجود تھے اور ہیں جن کی خدمت کسی کو نظر نہیں آتی۔ کوئی ان کی تعریف نہیں کرتا، کوئی ایک لفظ شکریہ کا منہ سے نہیں نکالتا کیونکہ یہ لوگ اپنا پیٹ پالنے کے لیے خدمت کا تھوڑا معاوضہ لیتے ہیں۔

زندہ رہنے کے لیے روزگار ہر فرد کی بنیادی ضرورت ہے۔ معاوضہ ادا کرنے والے کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اس نے خدمت کی قیمت ادا کردی بلکہ اس پر احسان کیا۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ یہ خادم نہ ہوتا تو اس کا کام کون کرتا؟ یہ کردار مختلف صورتوں میں سماجی زندگی کا اہم ضرورت ہے۔ گاؤں میں مزدور اور مختلف کاریگر معاشرے کے اہم ترین خدمت گزار ہیں۔ ان کا کام ہر کوئی نہیں کر سکتا، اس لیے ان سے خدمت لینے کے بعد ان کو اتنا معاوضہ دینا چاہیے جو ان کا حق بنتا ہے اور ساتھ ساتھ شکریہ کا لفظ منہ سے نکالا جائے یا دعاء دی جائے تو یہ اچھا اور مناسب سماجی رویہ ہوگا اور اس خدمت گار کی خدمت کا اعتراف ہوگا۔

قدیم زمانے میں گاؤں میں لوگ ایک دوسرے کی بلا معاوضہ خدمت کرتے تھے۔ اسے “یاردوئیی” کہتے تھے۔ ان کو رخصت کرتے وقت گھر کا بزرگ ان کو دعائیں دیا کرتا تھا۔ بعض دفعہ تھوڑا معاوضہ بھی دیتا اور دعاء بھی دیتا۔ شکریہ کہنا اور دعا دینا گویا لازمی تھا۔
اس تمہید کے بعد میں اپنی وادی یارخون کے ایسے خدمت گار کا ذکر کرنا چاہوں گا جو گزشتہ کئی سالوں سے ہماری بہترین خدمت انجام دے رہا ہے۔ اس نے یہاں کے عوام کو جو سہولت بہم پہنچائی ہے اس کا اعتراف بہتوں کو ہے البتہ اظہار نہیں کر پا رہے ہیں۔ ممکن ہے چند ایک بندے اس کو لفظ “مہربانی ” نوازتے ہوں گے۔

ہمارا یہ خدمت گار بیٹا سید یعقوب شاہ ہے۔ میراگرام نمبر دو کے سید خاندان کا یعقوب شاہ ایک سنئیر ڈرائیور ہے جس نے یارخون سے پشاور ڈائریکٹ سواری کی گاڑی چلا کر یہاں کے مسافروں کو جو سہولت دی ہے اس کا اعتراف ان سطور میں کرنا میں اپنا سماجی اور اخلاقی فرض سمجھتا ہوں۔ بطور خاص ہمارے علاقے کی طالب علم اور پشاور میں ملازم بچیاں باعزت اور باحفاظت سفر کرتی ہیں۔

یعقوب شاہ کی گاڑی میں اپنی بہن یا بیٹی کو سفر پر روانہ کرکے اس کا باپ یا بھائی مطمئن ہو جاتا ہے کیونکہ یعقوب شاہ اخلاقی لحاظ سے بھی بہت قابل بھروسہ انسان ہے۔
اپر چترال کے بہت سارے خاندان پشاور میں مستقل آباد ہیں اور بعض عارضی رہائش پذیر ہیں۔ گرمیوں میں ان کے گاوں سے ان کو پھل بھیجتے ہیں جو ایک دن میں تازہ تازہ ان کو مل جاتا ہے۔ سردیوں میں گھر سے الو، گاجر، اخروٹ، گوشت وغیرہ پشاور بھیجتے ہیں۔ اسی طرح پشاور سے ہلکا پھلکا سامان ، خاص کرکے ادویات بر وقت گاؤں پہنچ جاتی ہیں۔ یہ سارا کام سید یعقوب شاہ انجام دیتا ہے۔

آج کل غالباً دوسرے ٹرانسپورٹروں نے بھی یعقوب شاہ کے دیکھا دیکھی گاڑیاں چلانے لگے ہیں یوں یارخون خاص کرکے میراگرام نمبر دو ، ایمت، پاردان، پھݰک، ݰیݯ، دیوسیر، پاور، اوڅھو ہون ، پترانگاز، لعل آباد، بانگ بالا و پائین اور بیرزوز کے مسافروں کو یارخون پشاور اور پشاور یارخون ڈائریکٹ سفری سہولت مہیا کرکے سید یعقوب شاہ نے یارخون کی تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں درج کروایا ہے۔ اس کا یہ سماجی خدمت قابل تحسین ہے۔

غنی خان استاد مرحوم نے 1976 میں مستوج سے بانگ پہلی دفعہ گاڑی گزار کر اپنا نام زندہ رکھا۔ عوام کی اپنی مدد آپ کے تحت بننے والی اس خطرناک تنگ سڑک پر اپنی ذاتی گاڑی چلاتے ہوئے غنی خان مرحوم جب بانگ پولو گراؤنڈ پہنچے تو عوام نے ان کا پرجوش استقبال کیا اور غنی خان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔
یہی ہے عبادت یہی ہے دین و ایمان
کہ کام آئے دنیا میں انسان کے انسان (مولانا حالی)۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest