سلمان ہاشمی
اس عالمِ آب و گِل میں اللّه ربّ و العزت کے بہت سارے مخلوقات زندگی گزارنے کی تگ و دو کر رہے ہیں اور ہمیشہ سے انسان اُن میں مختلف رہا ہے ۔ کیوں کہ باقی تمام مخلوقات اُسی طرز پر جی رہے ہیں لیکن انسان نے اپنی زندگی کو روز بہ روز ترقی اور جدید سہولیات سے آراستہ و پیراستہ کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی ہے اور ایک حد تک اس کوشش میں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے ۔
یہ انسان کی خصوصیت ہوتی ہے کہ وُہ معاشرے کی خدمت کو اپنا فخر تصوٌر کرتا ہے اور اپنی ساری توانائیاں اِس کی بقاء پر صرف کر کے ایک روحانی سکون حاصل کرتا ہے۔ یہ تو خیر انسانوں کی بات ہے جہاں انسانیت زندہ ہو وہاں انسان کے حقوق اور ضروریات کی بات ہوتی ہے۔ مگر آج کل انسانوں کے بجانے گدھوں کا راج ہے اور گدھوں کی دنیا میں ہمیشہ اس کی چلتی ہے جس کے پاس طاقت ہو۔ یعنی سب سے مظبوط گدھا کھاتا بھی زیادہ ہے زمہ داریاں بھی زیادہ لیتا ہے اس کے ساتھ ساتھ کام چوری میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہوتا۔ ایک کمزور گدھے کو جب لاٹھی سے ہا نکا جائے اس میں حرکت پیدا ہوگی لیکن طاقت ور گدھے کو کمزور لاٹھی کچھ نہ کھانے کے برابر لگتا ہے۔ ان میں ایک قسم تو نا تجربہ کار گدھوں کی ہوتی ہے جن کی نا تجربہ کاری میں وقت گزر نے کے ساتھ اور بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ سیکھنے کے بجاۓ اور بھی جہالت کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ ایسے گدھے ہیں جو اپنی لاحاصل تجربے سے اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ ان کے شر سے اپنے پراۓ کوئی نہیں بچتا کیوں کہ یہ انصاف پسند ہوتے ہیں اور اپنی بساط کے مطابق کسی کو بھی نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
ایک قسم تو صرف رینکنے والے گدھوں کی ہوتی ہے۔ یہ گدھے اپنی کم عمری و کم فہمی کے باعث کام نہیں کرتے اگر کرنا چاہے تو کوئی مشکل نہیں۔ لیکن یہ لاڈلے گدھے ہوتے ہیں۔ ان کا کام اپنی بے جا طویل اور غیر معمولی بلند آواز سے انسانوں کو اپنی طرف متوجّہ کر کے ان سے چند گالیاں وصول کرنا ہوتا ہے۔ آج کل ان کی تعداد میں کسی قدر کمی محسوس ہورہی ہے۔ اس سے پہلے تو حالات سارے گدھوں کے حق میں تھے یہاں تک کے ملکِ خداداد کی دارالحکومت میں بھی ان ہی کا راج تھا خدا بھلا کریں سرکار کا جس نے ان کو بے نقاب کیا اور بڑے بڑے مسندوں یعنی ہوٹلوں سے بعض گدھوں کی تو لاشیں نکالیں بعض کو زندہ نکالا تھا پتا نہیں وہ اب زندہ بھی ہیں یا نہیں لیکن کبھی كبهار رینکنے کی آوازیں سن کر گمان گزرتا ہے کہ یہ وہی دارالحکومت والے گدھے ہونگے۔
میرا تو کبھی اسلام آباد جانا نہیں ہوتا لیکن ایک دوست وہاں سے آئے تھے یہی فرما رہے تھےکہ جناب وہاں تو آج کل گدھوں کے داخلے پر ہی قدغن ہے۔ ایک مرتبہ کیا پکڑے گئے وہاں تو لوگوں کو گدھوں سے نفرت ہی ہوگی۔ اب تو بوجھ اٹھانے کے لیے بھی گدھوں سے کام نہیں لیا جاتا لیکن جناب ایک بات ہے کہ تمھارے صوبے میں تو گدھے بہت زیادہ ہیں۔ کیا یہ سمجھدار ہو گئے ہیں یا اِن کی بس چلتی ہے اور تمہاری نہیں؟ اب جناب کو کون سمجھائے کہ یہاں تو اکثریت جن کی ہو ان کی چلتی ہے چاہے وہ گدھے ہی کیوں نہ ہو۔
