گل عدن چترال
یہ تحریر خالصتا چترالی عوام کے نام۔۔ خاص طور پر ان لوگوں کے نام جو اکثر ہمیں’ جب جب کسی واقعے جیسے چترال میں بڑھتی ہوئی خودکشی، منشیات فروشی فحاشی قتل و دیگر جرائم پر “اردو” میں بات کرنے سے ” روکتے” ہیں بلکہ تر لے منتیں کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ خدارا تان عزتو ہش کورور کی کھوارا لو دیور۔
میری آپ سے درخواست ہے
مانا کہ ہم چترالی بہت عظیم مہمان نواز ایک دوسرے کے کام آنیوالے انسانیت سے بھرپور ہمدردی کے جذبے سے سرشار لوگ ہیں مگر یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔اس حقیقت کو جتنی جلد ہوسکے تسلیم کر لیجئے کہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم سب میں بھی وہ تمام خرابیاں کمزوریاں اور برائیاں من و عن موجود ہیں جس میں ملک کے باقی حصوں میں بسنے والی عوام مبتلا ہیں۔
نجانے ہمارے دماغ میں یہ فتور کہاں سے آیا ہے کہ ہم بندہ بشر ہونے کے باوجود اخلاقی برائیوں اور غلطیوں سے پاک ہیں۔نا صرف یہ بلکہ ہمارے ننھے دماغوں میں یہ بھی فٹ ہے کہ ہم چترالی پٹھانوں پنجابیوں بلوچوں سے ہر لحاظ سے بہتر ہیں۔نعوذ بااللہ یعنی ہم تکبر میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر اسکو تکبر نہیں مانتے۔حالانکہ پے در پے واقعات و حالات ہمیں بار بار یاد دہانی کرواتے ہیں کہ ہم تسلیم کرلیں کہ ہم بھی پنجابی یا پٹھانوں کی طرح عام انسان ہیں۔۔انسان۔یعنی خطا کا پتلا
لہذا جسطرح ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی واقعات خاص کر بے راہ روی پر ہم کھل کر بات کر سکتے ہیں تو بالکل ویسے ہی ہم چترال کے اندر پھیلنے والی فحاشیوں پر بھی کھل کر جس زبان میں بھی چاہیں بات کر سکتے ہیں۔کیونکہ اگر چترالیوں کی عزت خود چترالیوں کے ہاتھ خطرے میں ہے تو چترال کی جھوٹی امیج کی حفاظت کسی فرد واحد کی ذمہ داری نہیں بنتی۔ہاں البتہ اردو کھوار کے بحث سے نکل کر آپ یہ رائے دے سکتے ہیں کہ برائیوں کا سدباب انکا چر چا کئے بنا کیسے کیا جائے؟ لیکن یہ بھی اس صورت میں لاگو ہوتا ہے جب برائیاں کھلم کھلا نہ ہوں چھپ کرکی جائیں لیکن جب برائیاں کھلم کھلا عروج پر ہوں تو پھر ان کے خلاف دنیا کی جتنی زبانوں میں آپ لکھ اور بول سکتے ہیں آپ کو بولنا چاہئے۔
بہتر ہے کہ سچائی کا سامنا کریں۔اصل مسائل پر نگاہ رکھیں اور اسکے مطابق قدم اٹھائیں۔چترال کی فیک امیج برقرار رکھنے کے لئے سچ کی آواز کو دبانے سے جھوٹی شان تو شاید کچھ عرصہ برقرار رہ پائے گی لیکن چترالیوں کی عزت اور ایمان دونوں خطرے میں ڈال کر نہ ہم دین کے رہیں گے نہ دنیا کہ ۔۔ اس لیے اردو میں بات کرنے سے جنکو لگتا ہے کہ انکے علاقے کی عزت خطرے میں ہے تو پہلے عزت اور جھوٹی امیج میں فرق جان لیں۔پھر اپنی قیمتی رائے سے نوازیں۔میں ان لوگوں کو سلام پیش کرتی ہوں جو آج کے اس دور میں بھی ناصرف برائی کو برائی سمجھتے ہیں بلکہ اسے روکنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔کیونکہ ہمارا دین تو ہمیں امر با المعروف نہی عن المنکر کا حکم دیتا ہے مگر دور ایسا ہے کہ گھر میں کسی کو نماز کا کہہ دیں تو رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔حالانکہ رب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حکم ہے کہ برائی کو جس قدر اور جسطرح روک سکتے ہو ۔اگر ہاتھ سے روک سکتے ہو تو ہاتھ کی طاقت سے روکو ۔ اگر زبان سے روک سکو تو زبان سے۔اگر اتنا بھی نہیں کر سکتے تو کم سے کم دل میں ہی برا جان لو مگر یہ ایمان کی بہت کمزور صورت ہوگی۔
لہذا سچ کے لئے آواز اٹھانے والوں کا ساتھ دیں اور بے کار کے موضوعات چھیڑ کر اصل مسائل کی طرف سے توجہ ہٹانے میں کردار ادا نہ کریں۔
شکریہ
