تحریر – خیرالدین شادانی
پاکستان کے مالیاتی نظام کی بنیاد سمجھا جانے والا نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ آج وہی نظام بن چکا ہے جس نے وفاق کو کمزور اور صوبائی اشرافیہ کو طاقتور بنا دیا ہے۔ جس تصور کے تحت یہ نظام بنایا گیا تھا، اس کی روح عوامی ترقی تھی، مگر حقیقت یہ ہے کہ این ایف سی نے صوبوں میں سیاسی جماعتوں کو مالی بدعنوانی کا راستہ فراہم کیا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اور بلوچستان میں مختلف گروہوں نے اپنے اپنے صوبائی حصے کو عوامی خدمت کے بجائے جماعتی طاقت بڑھانے میں استعمال کیا۔
این ایف سی کے تحت وفاق سے صوبوں کو دیے جانے والے حصے بڑھا دیے گئے، لیکن وفاق کے ذمے وہی قومی اخراجات باقی رہے جن میں دفاع، قرضوں کی ادائیگی، توانائی، اور خارجہ امور شامل ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وفاقی حکومت کے پاس اپنے فرائض پورے کرنے کے لیے وسائل کم پڑ گئے اور اسے غیر ملکی قرضوں پر انحصار بڑھانا پڑا۔ آج پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود مالی لحاظ سے کمزور اس لیے ہے کہ مرکز کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں جبکہ صوبے غیر جوابدہ مالی آزادی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
اس وقت وفاق کا حصہ کم اور صوبوں کا حصہ زیادہ ہونے سے پورے بجٹ کا توازن بگڑ گیا ہے۔ صوبے اپنی آمدنی بڑھانے کے بجائے وفاق کے وسائل پر انحصار کرتے ہیں، اور نتیجہ یہ ہے کہ قومی معیشت میں خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔ صوبائی حکومتوں کے پاس نہ تو اپنی آمدنی کے ذرائع بہتر کرنے کی کوئی سنجیدہ پالیسی ہے اور نہ ہی اخراجات میں شفافیت۔ عوامی فلاح کے منصوبے کاغذوں تک محدود ہیں جبکہ این ایف سی کے فنڈز اکثر سیاسی مہمات، اشتہارات، اور غیر ضروری منصوبوں پر خرچ ہو جاتے ہیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو این ایف سی سے اربوں روپے ملے لیکن کراچی، لاڑکانہ اور اندرون سندھ کے حالات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پیسہ عوام پر نہیں لگا۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ادوار میں ترقیاتی فنڈز زیادہ تر مخصوص علاقوں اور حلقوں تک محدود رہے۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف نے تبدیلی کے نعروں کے باوجود وہی روایتی طرز اپنایا، جہاں فنڈز کے استعمال میں شفافیت کم اور سیاسی مصلحت زیادہ نظر آئی۔ بلوچستان میں وسائل چند خاندانوں تک محدود ہیں، اور عوام آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
این ایف سی ایوارڈ کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ کارکردگی پر نہیں بلکہ آبادی اور غربت کے تناسب پر مبنی ہے۔ آبادی زیادہ ہو تو فنڈز زیادہ، چاہے کارکردگی کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو۔ اس فارمولا نے محنت اور شفافیت کے اصولوں کو دفن کر دیا۔ صوبے اس بات کے عادی ہو گئے کہ انہیں بغیر جوابدہی کے پیسہ ملے گا۔ نتیجتاً کرپشن، بدانتظامی اور مالی بےضابطگیاں ادارہ جاتی سطح پر عام ہو گئیں۔
وفاق کو قرضوں اور دفاعی اخراجات کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے جبکہ صوبے اپنے مالی بوجھ سے آزاد ہیں۔ یہ وہ تضاد ہے جو کسی بھی متحد ریاست کے لیے خطرناک ہے۔ جب وفاق کمزور ہوتا ہے تو نہ صرف مالی نظام بکھرتا ہے بلکہ قومی سلامتی بھی خطرے میں پڑتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے ایک مضبوط اور مالی طور پر خودمختار وفاق لازمی ہے تاکہ قومی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہے۔
این ایف سی کے تحت ہونے والی مالی تقسیم کے باوجود صوبائی سطح پر سماجی ترقی کے اشاریے بہتر نہیں ہو سکے۔ تعلیم، صحت، پینے کے پانی، صفائی، اور روزگار کے مواقع اب بھی زوال پذیر ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسئلہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ ان کے استعمال کی شفافیت کا ہے۔ صوبائی حکومتیں اپنے فنڈز کے آڈٹ سے بھی گریز کرتی ہیں، جس سے بدعنوانی کا دائرہ مزید وسیع ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں وفاقی حکومت نے بارہا کوشش کی کہ این ایف سی کے فارمولے کو ازسرِنو ترتیب دیا جائے مگر صوبائی حکومتیں ہمیشہ مزاحمت کرتی رہیں۔ وہ اپنے مالی حصے کو کسی بھی صورت کم نہیں کرنا چاہتیں، چاہے اس سے ملک دیوالیہ ہی کیوں نہ ہو جائے۔ یہی سیاسی رویہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ایک اور سنگین پہلو یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں این ایف سی کے ذریعے آنے والے فنڈز کو وفاق کے خلاف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ وفاق پر الزام تراشی اور صوبائی تعصب کو ہوا دینا عام سیاست بن چکی ہے۔ اس عمل نے نہ صرف قومی یکجہتی کو نقصان پہنچایا بلکہ ریاستی اداروں کے درمیان اعتماد بھی کم کر دیا۔
حالیہ برسوں میں ملک میں سیلاب، زلزلے، اور دیگر قدرتی آفات نے یہ بھی ثابت کیا کہ صوبے اپنے عوام کے تحفظ اور بحالی میں ناکام رہے۔ این ایف سی کے تحت ملنے والے فنڈز ان ہنگامی حالات میں خاطر خواہ مدد فراہم نہ کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ اگر صوبے اتنا پیسہ لے رہے ہیں تو عوام کو ریلیف کیوں نہیں ملتا؟
یہ پورا ماڈل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اختیارات کی غیر متوازن تقسیم نے وفاق اور صوبوں کے درمیان ذمہ داری کا توازن بگاڑ دیا ہے۔ وفاق جوابدہ ہے مگر وسائل سے محروم، جبکہ صوبے بااختیار ہیں مگر غیر جوابدہ۔ اس تضاد نے پاکستان کو مالی بدحالی اور سیاسی انتشار کی طرف دھکیل دیا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنے مالیاتی ڈھانچے پر ازسرِنو غور کرے۔ این ایف سی ایوارڈ کو شفاف، جوابدہ، اور کارکردگی کی بنیاد پر ازسرِنو تشکیل دینا ضروری ہے۔ وفاق کو وہ طاقت واپس دینی ہوگی جس سے قومی منصوبے یکساں طور پر ہر صوبے میں نافذ ہو سکیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان فنڈز کی تقسیم کی نگرانی ایک آزاد قومی ادارہ کرے جو عوام کے سامنے جوابدہ ہو۔ جب تک اس مالیاتی نظام میں شفافیت اور احتساب نہیں آئے گا، ملک ترقی کے راستے پر نہیں چل سکتا۔
پاکستان کی سلامتی، معیشت، اور خودمختاری کا دار و مدار ایک مضبوط وفاق پر ہے۔ اگر وفاق مالی طور پر مستحکم ہو گا تو قرضوں کا انحصار کم ہو گا، دفاع مضبوط ہو گا، اور صوبے بھی اپنے حصے کے مطابق ترقی کر سکیں گے۔
این ایف سی ایوارڈ کا موجودہ ڈھانچہ قومی ترقی کے بجائے صوبائی سیاست کا آلہ بن چکا ہے۔ اسے برقرار رکھنا ملک کے مفاد میں نہیں۔ پاکستان کو ایک نئے مالیاتی ماڈل کی ضرورت ہے جو مرکزیت، شفافیت اور قومی ذمہ داری پر مبنی ہو، تاکہ ایک ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے ہمارا ملک مضبوط، خودمختار اور مستحکم بن سکے۔

