گل عدن چترال
ایک عجیب تضاد ہے۔۔ سرکاری افسر جو ظاہری طور پر ایک بااختیار شخصیت نظر آتا ہے لیکن درحقیقت ایک ایسی زنجیر میں جکڑا ہوتا ہے جسکی کڑیاں نظر نہیں آتیں۔ یعنی جتنا وہ بااختیار ہے اتنا ہی بے بس ہے۔ وہ حکم دیتا بھی ہے مگر خود کہیں احکامات کا پابند ہے۔وہ فائلوں پر دستخط کرتا ہے مگر ناصرف انہی فائلوں کے اصولوں کا قیدی ہوجاتا ہے بلکہ اکثر اوقات یہ دستخط بھی اپنی مرضی کے خلاف کسی حکم کے نتیجے میں اپنے دل اور ضمیر پر پتھر رکھ کے کرتا ہے۔وہ عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار اعلی عہدے پر فائز ہوتا ہے مگر اسکی سرشاری اسکے جذبات اسکی آزادی کاغذات اجلاسوں منظوریوں اور حکام بالا کے ہدایات کی نذر ہو جاتا ہے۔ اسکے قلم میں طاقت تو ہے مگر یہ بد قسمت قلم طاقت ور ہوتے ہوئے بھی افسر بالا کی اجازت کا پابند ہے۔ یہ مجبور بے بس سرکاری افسران نظام کے قیدی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہیں جن پر عوامی اعتماد ریاستی نظم اور انصاف کی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ یہ ذمہ داری کھبی گلے کا طوق بن جاتی ہو۔
ہمارے معاشرے میں ایک عام انسان کی زندگی اس سے وابستہ لوگوں کی توقعات کی وجہ سے بعض اوقات بہت مشکل ہوجاتی ہے پھر سوچئے اس معاشرے میں ایک عہدے دار کی زندگی توقعات کے بوجھ تلے کیسے گزرتی ہوگی۔اس پر سماجی اور معاشی اور معاشرتی دباؤ کی کیا حد ہوگی؟۔
ایس پی عدیل اکبر کی خودکشی نے بھی کہیں سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا اس موت کے پیچھے صرف ادارہ جاتی دباؤ اور ذمہ داریوں کا بوجھ تھا یا آیا افسر بالا کی غیر منصفانہ توقعات تھیں؟؟ اگر وہ با صلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ دیانتدار آفیسر تھے تو ان کی پروموشن کیوں نہیں ہورہی تھی؟؟ ایک دیانتدار آفیسر ہی ڈیپریشن میں کیوں چلا جاتا ہے؟؟ ایک دیانتدار آفیسر کو ہی ناانصافی کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟ ایک ایماندار افسر پر ہی کرپشن کے الزامات ‘انکوائریاں ‘تبادلے یا معطلی کے خطرات کیوں منڈلاتے رہتے ہیں؟کیوں ایک باصلاحیت افسر کو ہی ترقی کی بھیک مانگنی پڑتی ہے؟ کیوں ایک دیانتدار افسر بالآخر بے بسی ‘بے چارگی اور مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے؟؟؟ سوچنے کی بات ہے عوام کو تحفظ دینے والا اپنی زندگی کا محافظ کیوں نہیں بن سکا۔ یہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کا پہلا واقعہ نہیں ہے لیکن کاش کہ آئیندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔اس واقعے کا دوسرا بڑا سبق یہ ہے کہ ابھی بھی وقت ہے ذہنی صحت کو سنجیدہ لیا جائے۔
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہی ہےکہ ہم ذہنی صحت کو سائیڈ پر رکھ کر معمول کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ یعنی کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں ۔۔ ہمارا مجموعی طور پر ایمان یہ ہے کہ دل بیمار ہو سکتا ہے جگر خراب ہوسکتا ہے گردے ختم ہوسکتے ہیں مگر دماغ ذہن اسکو کھبی خراش نہیں آنی شاید یہ ہماری غیرت کا مسئلہ ہے۔ یہ کھبی ختم نہیں ہوسکتی کھبی خراب نہیں ہوسکتی اسکو کھبی علاج کی ضرورت نہیں پڑتی جبکہ حقیقت یہ کہ اس وقت دنیا جسمانی بیماریوں سے زیادہ ذہنی بیماریوں کا شکار ہے۔ آج کا تقریبا ہر خاص و عام انسان ذہنی تکالیف میں مبتلا ہے اور اکیلے لڑ رہا ہے اور اکیلے لڑنے پر مجبور ہے کیونکہ چند ذہنی طور پر صحت مندوں کا معاشرہ ذہنی بیماروں کو پتھر مارتا ہے۔
لہذا ہم مارے شرم کے اندر ہی اندر ان بیماریوں سے لڑ رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔ خاص طور پر پولیس جیسے ادارے کے ملازمین کن ذہنی اذیتوں سے گزر رہے ہیں ہم اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔پے در پے خودکشی کے واقعات خاص طور پر مرد حضرات کی خودکشیاں اس معاشرے کی ایک اور کمزور پہلو کو سامنے لاتی ہیں جو مردوں کو یعنی بیٹوں کو اس سوچ کے ساتھ پروان چڑھاتے ہیں کہ مرد وہ ہے جسکے کوئی احساسات نہیں ہوتے ۔۔جو روتا نہیں ہے ۔جسے درد نہیں ہوتا۔جسکو کھبی مدد کی ضرورت نہیں ہوسکتی بلکہ وہ ہمیشہ دوسروں کی مدد کرتا ہے دوسرے کو تحفظ دیتا ہے رونے والوں کو کندھا دینا مرد کی مظبوطی کو ثابت کرتا ہے جبکہ اسے خود کھبی کندھے کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔ اگر ایسا ہوتا تو آج مرد و عورت میں خودکشی کا تناسب برابر نہ ہوتا۔ہمیں مجموعی طور پر اپنے اس روئے میں لچک لانے کی ضرورت ہے۔
یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے اول یہ کہ مرد بھی انسان کا بچہ ہے اس کے بھی احساسات اور جذبات ہیں ‘دوسرا مرد و عورت دونوں کی” ذہنی صحت” ایک صحت مند معاشرے کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
دوسرا پولیس جیسے اداروں میں ملازمین کی ذہنی صحت کے لیے یونٹ قائم کیے جائیں انکی نفسیاتی صحت کو سنجیدہ لیا جائے۔اور عدیل اکبر جیسے افسران کی موت تحقیقات کا حق تو رکھتی ہیں لیکن ہم اس معاشرے کے آزاد قیدیوں سے صرف ہمدردی کرسکتے ہیں۔کوئی مطالبہ نہیں کرسکتے۔کیونکہ کالے شیشوں والی گاڑی کے اندر خودکشی یا قتل کا گواہ بھی اور اسکو انصاف دلانے والا بھی اب صرف رب کی ذات ہے۔
