Dr Inayatullah Faizi

پروفیسر رازی صاحب کی نئی کتاب


داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

حال ہی میں ادارہ فروغ قومی زبان اسلام آباد نے چترال کے نامور محقق، شاعر اور انشاپر داز پروفیسر محمد نقیب اللہ رازی صاحب کی نئی کتاب شائع کی ہے۔ کتاب پاکستانی ادبیات کے سلسلہ وار اشاعتی منصوبے میں ہند آریائی زبانوں کی دار الدیشاخ سے تعلق رکھنے والی زبان کھوار کی لوک داستانوں اور کہانیوں کا تجزیہ کرتی ہے۔ اس لحاظ سے کتاب کا نام دو حصوں میں منقسم ہے: ’’پاکستان کی لوک داستانیں: کھوار‘‘۔ 116 صفحات کی یہ کتاب مختصر ہونے کے ساتھ جامع بھی ہے۔ اس میں کھوار کی لوک کہانیوں اور داستانوں پر شائع ہونے والی تین اہم کتابوں سے 17 منتخب کہانیاں اور داستانیں کو یکجا کر کے ہر کہانی اور داستان کا خلاصہ دیا گیا ہے، خلاصہ کے بعد اس کے ادبی محاسن کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس میں جو حکمت و دانش موجود ہے اس پر بحث کی گئی ہے۔ مصنف نے تینوں کتابوں کے مصنفین کا مختصر سوانحِ خاکہ بھی دلنشین اسلوب میں لکھا ہے۔

پروفیسر محمد نقیب اللہ رازی اردو اور کھوار کے صاحب طرز اور کہنہ مشق ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے علوم اسلامی یعنی فقہ، تفسیر اور حدیث کی تعلیم دارالعلوم کراچی سے حاصل کی، مفتی تقی عثمانی اور دیگر اکابر علماء کے سامنے زانوی تلمذتیہ کرنے کا شرف پایا، پھر عربی اور اسلامیات میں ایم اے کے بعد ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ چند سال محکمہ تعلیم سے وابستہ رہنے کے بعد شرینگل یونیورسٹی میں تدریسی خدمات پر مامور ہوئے، پھر جامعہ چترال میں خدمات انجام دیئے، اب بھی جامعہ چترال سے وابستہ ہیں۔ آپ کے نعتیہ مجموعے کو قومی سیرت ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ نعتیہ مجموعے کے علاوہ 8 کتابیں اور بھی شائع ہو چکی ہیں، جن میں کھوار قاعدہ اور گرامر، کھوار عروض و قوانین، کھوار ادب کی مختصر تاریخ، حیات الحیوان کا کھوار ترجمہ، رائلیٹی کی شرعی حیثیت، کھوار مجموعہ کلام، اردو مجموعہ کلام، اور پاکستان کی لوک داستانیں: کھوار شامل ہیں۔ قرآن پاک کا کھوار ترجمہ زیر تکمیل ہے۔

رازی صاحب نے اپنی تازہ ترین تصنیف میں غلام عمر اور ممتاز حسین کی دو کتابوں کے ساتھ ظہور الحق دانش اور فرید احمد رضا کی مشترکہ کوشش پر تحقیقی کام کیا ہے۔ غلام عمر کی کتاب ’’چترال کی لوک کہانیاں‘‘ 1984 میں شائع ہوئی، یہ لوک ورثہ کا پراجیکٹ تھا جسے لوک ورثہ نے خود شائع کیا۔ ممتاز حسین کی کتاب ’’شیلوغ‘‘ نیشنل بک فاؤنڈیشن نے 2014 میں شائع کی۔ ظہور الحق دانش اور فرید احمد رضا کی کتاب ’’کھوار شیلوغ‘‘ لوک ورثہ اسلام آباد نے اردو اور انگریزی ترجمہ کے ساتھ 2019 میں شائع کی۔

محقق نے غلام عمر کی کتاب سے چار کہانیوں کا انتخاب کیا ہے۔ بیگال کی کہانی بھی ان میں شامل ہے۔ کہانی ماں اور بیٹے کی محبت کے گرد گھومتی ہے۔ ظالم حکمران گھڑدوڑ اور چوکان بازی کے کھیل میں ہر روز بیگال کے ہاتھوں شکست کھاتا ہے۔ اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے رات کی تاریکی میں بیگال کو قتل کرتا ہے۔ ماں اپنے بیٹے کے قتل کا واقعہ راز میں رکھ کر بیگال کا گھوڑا مقابلے کے لیے تیار کرتی ہے اور بیگال کے کپڑے پہن کر سر پر خود رکھ کر مقابلے پر جاتی ہے۔ مقابلے میں ظالم بادشاہ کو شکست دینے کے بعد مجمع عام میں سر سے خود اتار کر بیٹے کو مخاطب کر کے بیٹے کا مرثیہ گاتی ہے:
’’میرے لال ماں کے بیگال چوگان تو بڑھیا بھی کھیل سکتی ہے، پھر ظالم بادشاہ نے تمہیں کس لیے قتل کیا؟‘‘
ادبی محاسن میں رازی صاحب نے ممتاکی محبت کے لیے موزوں پیرایہ اظہار کو سراہتے ہوئے گیت اور کہانی کے باہمی تعلق کو بیان کیا ہے۔ حکمت و دانش کے حوالے سے مصنف نے خاتون کے برداشت، تحمل اور جذبے کا ذکر کیا ہے، اس کی راز داری کو بطور خاص سراہا ہے اور اس کی مردانہ وار بہادری کے ساتھ چوگان کھیلنے کی مہارت کو داد تحسین کا مستحق ٹھہرایا ہے۔

ممتاز حسین کی کتاب سے آٹھ کہانیاں کتاب کے لیے چنی گئی ہیں، ان میں چڑیا کی کہانی بھی شامل ہے۔ کہانی میں چڑیا ایک خار دار جھاڑی کی شاخ پر بیٹھ کر موتیوں کی مالا بنا رہی تھی۔ ایک موتی پھسل کر آگ میں گر گئی، چڑیا نے آگ سے التجا کی کہ موتی لوٹا دے۔ آگ نے معذرت کی تو پانی سے کہا آگ کو بجھا دے، پانی نے معذرت کی تو بیل سے کہا پانی کو پی کر ختم کر لے۔ اس طرح فوڈ چین کے سات متضاد کرداروں کے انکار کے بعد بالاخر آگ بجھنے کا مرحلہ آتا ہے اور چڑیا کی موتی اس کو مل جاتی ہے۔ یہ کہانی پنجابی زبان میں بھی ہے۔ اس کے ادبی محاسن میں التجا کی لجاجت اور انکار میں رعونت کا ذکر آیا ہے۔ حکمت و دانش کے حوالے سے قدرتی مناظر اور ماحول کی مناسبت سے معاشرتی سبق کا بیان آیا ہے۔

ظہور الحق دانش اور فرید احمد رضا کی کتاب سے چھ کہانیاں کا انتخاب کیا گیا ہے، جن میں ’’خندہ زن شہباز‘‘ بھی شامل ہے۔ اس میں چار بھائیوں کا ذکر ہے، تین سو تیلے بھائی چوتھے بھائی سے رقابت کرتے تھے۔ اس رقابت کی تہہ در تہہ داستان کے آخر میں حسد کی آگ میں جلنے والے ناکام ہوتے ہیں۔ خندہ زن شہباز بھی چوتھے بھائی کا ہو جاتا ہے اور باپ بھی چوتھے بیٹے کو شاباش دیتا ہے۔ ادبی محاسن میں داستان کی سنسنی خیزی نمایاں ہے۔ حکمت و دانش کے لحاظ سے حسد کی برائی اور نیک نیتی کے اچھے انجام کا ذکر آیا ہے۔

پروفیسر رازی صاحب کی نئی کتاب ہر لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔


Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest