داد بیداد
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
پرو فیسر ڈاکٹر نذیر تبسم کی جدائی سے پشاور کی علمی، ثقا فتی اور ادبی زند گی میں ایسا خلا پیدا ہوا ہے جسے کوئی دوسرا نذیر تبسم ہی پُر کر سکیگا نذیر تبسم کی شخصیت میں پشاور کی روا یتی وصفد اری بہت نما یا ں تھی ان کی خود داری میر تقی میر جیسی تھی انگریزافیسردفتر سے با ہر استقبال کو نہ آیا تو میر تانگے سے نہیں اتر ے بقول غا لب ”الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وانہ ہوا“
ان کی گفتگو میں ہند کو کی سچی مٹھا س تھی ان کے دل میں سب کے لئے کھلی جگہ تھی محبت کرنا، محبت بانٹنا اور محبت کو زبان دینا انہیں خو ب آتا تھا 1970کا عشرہ پشاور کی ادبی فضا میں یا د گار عشرہ تھا، بزرگ شاعر وں میں فارغ بخا ری، شرر نعما نی، رضا ہمدانی، مسعود انور شفقی، شمیم بھیروی، طٰہٰ خان، احمد فراز، خا طرغزنوی،شوکت واسطی،یوسف رجا چشتی جبکہ نو جوان شعرا میں سجا د با بر، اکمل نعیم، نا صر علی سید، عزیز اعجاز اور ندیم تبسم ہر محفل اور ہر مجلس کی رونق ہو ا کر تے تھے، نو جوان شعراء نے ینگ تھنکر ز فورم کے نا م سے ادبی تنظیم بنا ئی تھی جس کے اجلا س سنہر ی مسجد روڈ پر پیرا ڈائز ہو ٹل میں ہوا کر تے تھے، پھر یو سف رجا ء چشتی نے پشاور کلب میں اپنے گھر کا لان ینگ تھنکرز فور م کی نذر کیا نذیر تبسم کی جو غزل آج تک مجھے یا د ہے وہ غزل یہاں سنا ئی گئی تھی جس کا مطلع ہے
لہو کا زہر بھی جس کی نگا ہ ِبد میں ہے
وہ شخص مجھ سے بڑا صرف اپنے قد میں ہے
اُس زما نے میں احمد فراز نیشنل سنٹر کے ڈائریکٹر تھے ان کا دفتر صدر روڈ پر ہوتاتھا نیشنل سنٹر کی لائبریری میں بھی ادبی نشستیں ہو تی تھیں، ابا سین آر ٹس کو نسل کی عمارت پشاورمیو زئیم سے متصل ہوا کر تی تھی آج کل پبلک لائبریری وہاں بنی ہے، اردو سائنس بورڈ کا نا م مر کزی اردو بورڈ تھا اُس کی لائبریری سوئیکا نو چوک میں تھی جہاں مولانا فضل معبود بیٹھتے تھے ادبی تقریبات کی کمپیرنگ عموماً پرو فیسر خا طر غز نوی کیا کر تے تھے رفتہ رفتہ نا صر علی سید اور نذیر تبسم نے ان کی جگہ لے لی ایسی ہی ایک تقریب میں نذیر تبسم نے اپنی مقبول نظم سنا کر بے پنا ہ داد حا صل کی تھی
رتجگوں کے صحرامیں خواب جب اجڑ جا ئیں
تم اداس مت ہونا
زند گی کے میلے میں ہم اگر بچھڑ جائیں
تم اداس مت ہو نا
ڈاکٹر نذیر تبسم کی کمپیئرنگ بھی کمال کی ہو تی تھی وہ پرو گرام میں اپنے آپ کو بہت کم وقت دیتا تھا مگر جتنا وقت لیتا تھا اُس کو امر کر دیتا تھا حا ضرین چاہتے تھے کہ وہ زیا دہ سے زیا دہ بولیں اُس کے اشارے بھی کما ل کے ہو تے تھے اور تحت اللفظ میں اشعار پڑھنے کا اسلو ب بھی بیحد دلکش اور دلا ویز ہوتا تھا ان کا شمار پا کستان کے اُن ما یہ نا ز کمپیئروں میں ہوتا تھا جنہیں ضیا محی الدین کی طرح تحت اللفظ پڑھنے کا فن آتا تھا پی ایچ ڈی کے لئے انہوں نے اُس وقت کے صو بہ سر حد میں اردو شاعری پر کام کیا شاگردوں نے ان کو چترال کے صالح ولی آزاد کی کتاب پیش کی تو بہت خو ش ہوئے کہ صوبے کے شمال میں افغا نستان کی سر حد پر واقع علا قے میں شاعروں نے اردو کو اظہار کا ذریعہ بنا یا اور کسی شاعر کا مجموعہ کلا م بھی شائع ہوا نذیر تبسم کے بے شمار اشعار ایسے ہیں جو قدیم اسا تذہ کے کلا م کی طرح زبان زدِعام ہو کرضرب المثل کا درجہ پا چکے ہیں
جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہوتا ہے
مو سم تو انسان کے اندر ہوتا ہے
ان کی شاعری کے تین مجمو عے شائع ہو ئے چو تھا مجموعہ اور کلیات شاہد ان کے احباب شائع کر وائینگے، جو مجمو عے شائع ہوئے ان میں تم اداس مت ہونا، ابھی مو سم نہیں بدلا اور کیسے رائیگاں ہو ئے ہم، شامل ہیں نذیر تبسم پشاور کی آبروکادرجہ رکھتے تھے اپنے کلا م کے بارے میں تعلی کا لا جواب شعر انہوں نے عنا یت کیا ہے
کسی کے قرب نے اتنا وقار تو بخشا
کہ اپنے لہجے سے ہم بے ہنر نہیں لگتے
ان کی وفات کے دن نا صر علی سید امریکہ یورپ کے دورے پر تھے، وفات کے تیسرے دن انہوں نے پشاور واپسی کے سفر کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی تو ان کے مشترکہ دوست نے فراز کا شعران کی نذر کیا
اب آئے ہو یہاں کیا ہے دیکھنے کے لئے
یہ شہر کب سے ہے ویراں وہ لو گ کب کے گئے

