داد بیداد
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
جس افسر، سیاستدان یا سفارتکار نے وہ کاغذ پڑھا، اُس کو کاغذ کی صداقت پر یقین نہیں آیا۔ اُس نے ضرور فون کر کے پوچھا: “کیا یہ بات درست ہے؟ کیا پاکستان میں ایسے دو اضلاع بھی ہیں جہاں کے لوگ افغان مہاجرین کو واپس ان کے ملک بھیجنا نہیں چاہتے؟ کیا یہ درست ہے کہ اپر چترال اور لوئر چترال کی سول سوسائٹی افغان مہاجرین کو افغانستان واپس بھیجنے کی مخالفت کرتی ہے؟ کیا یہ بات درست ہے کہ اپر چترال اور لوئر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے پلیٹ فارم سے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی تاریخ میں ایک بار پھر تاخیر اور مہلت کا متفقہ مطالبہ کیا ہے؟”
کراچی سے خیبر اور گوادر سے وزیرستان تک ہر ضلع سے خبر آتی ہے کہ افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجا جائے، جبکہ چترال کے دو اضلاع سے مسلسل خبریں آرہی ہیں کہ مقامی آبادی نے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی مخالفت کی ہے اور مزید مہلت کا تقاضا کیا ہے۔ یہ کوئی سازش نہیں، کوئی غلط فہمی نہیں ہے، اس میں کوئی مغالطہ بھی نہیں ہے۔ چترال سے جن مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کا حکم ہوا تھا، ان کا تعلق بدخشان اور پنجشیر سے ہے، جو چترال کے شمال اور مغرب میں کوہ ہندوکش کے اُس پار واقع ہیں۔ 45 سالوں میں ان کی ایک نسل یہاں دفن ہوئی، دوسری نسل بوڑھی ہو گئی، اور تیسری نسل جوان اور صاحب اولاد ہوئی۔
چترال کے دو اضلاع میں نہ عوام نے مہاجرین کی طرف سے کوئی برائی دیکھی، نہ انتظامیہ نے کوئی الزام یا جرم دیکھا، نہ خفیہ اداروں کو ان کے کسی منفی طرز عمل کی رپورٹ ملی۔ اس طرح بدخشان اور پنجشیر کے مہاجرین کے ساتھ چترال کے دو اضلاع کا تجربہ پورے ملک سے منفرد تھا۔ اس وجہ سے جب افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا نیا حکم آیا، تو چترال کے دونوں اضلاع سے ان کے حق میں آواز بلند ہوئیں۔ سماجی تنظیموں نے ان کے حق میں آواز اٹھائی، اخبارات میں بیانات دیے، تمام سیاسی پارٹیوں نے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی، اور دلچسپ بات یہ تھی کہ عوامی نیشنل پارٹی کے صدر حاجی عید الحسین کی دعوت پر تمام جماعتوں کے اکابرین نے لبیک کہا اور متفقہ قرارداد منظور کی۔ اس کی کاپیاں حکومت کو بھیجی گئیں، مقامی حکام سے ملاقاتیں کر کے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی گئی۔
اس کی منطقی اور ظاہری وجہ یہ ہے کہ بدخشان اور پنجشیر کے لوگ بھی چترال کے عوام کی طرح پرامن لوگ ہیں۔ دونوں کی ثقافتوں میں امن پسندی قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔ مشترکہ اقدار کی بازیابی اور آگاہی میں دانشوروں کا بھی حصہ ہے۔ چترال کے اختر اقبال، عزیز علی اور سلیم خان کا حصہ ہے، خنجر خان چترالی کا ورثہ بھی نظر آتا ہے، پنجشیر اور بدخشان کے استاد عبد الروف وحدت، قاری عبد السلام اور قاری عبد الرزاق کا حصہ ہے، اور برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود کا ورثہ بھی نمایاں ہے۔
تاریخ کا ایک باب یہ بھی ہے کہ انگریزوں کی عملداری سے پہلے چترال کے لوگ تجارت، کاروبار اور تعلیم کے لیے بدخشان اور تاجکستان سے ہو کر کاشغر اور ازبکستان تک جاتے تھے۔ 2005ء میں لواری ٹنل کی تعمیر کا کام دوسری بار شروع ہوا، تو شاہ سلیم کے راستے بدخشان اور تاجکستان کو چترال، چکدرہ، پشاور اور اسلام آباد سے ملانے کے لیے سفارتی محاذ پر کامیاب اور قابل عمل منصوبہ بندی ہوئی تھی۔ چترال کے ضلع ناظم حاجی مغفرت شاہ وزارت مواصلات کے حکام سے مل کر ہوم ورک مکمل کر چکے تھے۔ 2008ء کے بعد پالیسیاں بدل گئیں جب وفاقی حکومت آئی۔
اسلام آباد سے بسوں اور لاریوں کے قافلے لواری ٹنل کے راستے فیض آباد، خور وگ اور دوشنبہ تک سفر کرنے لگے۔ تاریخی اور ثقافتی روابط کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا احیاء ہو رہا تھا۔ 1982 سے 1987 تک جو مہاجرین افغانستان سے ایران گئے تھے، انہیں خار دار تاروں کے اندر سخت پہرے میں کیمپ بنا کر رکھا گیا تھا، اور خشک راشن ملتا تھا۔ 1991ء میں امریکہ اور روس کا معاہدہ عمل میں آیا، تو ان کو کیمپوں سے نکال کر واپس بھیج دیا گیا۔ اُس کے مقابلے میں پاکستان کے اندر افغان مہاجرین کو دیہات میں گھر لینے، کاروبار کرنے اور شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی۔ نوکریوں کی اجازت ملی، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنانے کی آزادی ملی، اور تعلیمی اداروں میں داخلے دیے گئے۔ اس طرح افغان مہاجر اور ہندوستانی مہاجر میں کوئی فرق نہیں رہا۔
پنجشیر اور بدخشان سے آئے ہوئے مہاجرین سے چترال کے عوام کو کسی قسم کی شکایت نہیں تھی۔ اس لئے چترال کے عوام نے یک زبان ہو کر حکومت سے مطالبہ کیا کہ ہمارے دیہات اور بازاروں سے جانے والے مہاجرین کی واپسی کو مؤخر کیا جائے۔ یہ ایثار اور محبت قابل تعریف بھی ہے اور قابل تقلید بھی ہے۔

