ریاست چترال کی جمہوری تاریخ

دھڑکنوں کی زبان

محمد جاوید حیات

ریاست چترال پر ریاستی حکمرانوں کے خلاف جب لوگ میدان میں آئے تو یہ دور برصغیر کی آزادی کے بعد کا تھا۔ 1950 کی دہائی میں ریاستی مسلم لیگ بنا کر لوگ سیاسی میدان میں نکلے۔ پھر یہاں حکومت تبدیل ہو گئی۔ حکومتِ پاکستان نے مختلف انداز سے ریاست پر اپنی رِٹ قائم رکھی۔ 1969ء کو ریاست کا باقاعدہ طور پر حکومتِ پاکستان کے ساتھ الحاق ہوا۔

ریاستی حکمران بیدار مغز تھے۔ انہوں نے تحریکِ آزادیِ ہند میں اپنا کردار ادا کیا اور آزادی سے پہلے ہی پاکستان کے ساتھ الحاق کی آمادگی ظاہر کی۔

1971ء کے عام انتخابات میں اتالیق جعفر علی شاہ اور چترال کے معروف سماجی کارکن نادر خان کے درمیان مقابلہ ہوا۔ اس وقت کوہستان بھی چترال کے ساتھ شامل تھا۔ ابتدائی نتیجہ آیا تو چترال میں نادر خان کو برتری حاصل تھی، مگر ایک ماہ بعد کوہستان کا نتیجہ آیا تو اتالیق جعفر علی شاہ کامیاب قرار پائے۔

جعفر علی شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بیدار مغز شخصیت تھے۔ انہوں نے جمہوریت کی آواز بن کر چترال کے لیے لواری ٹنل کی تعمیر کو واحد ایجنڈا بنا کر قومی اسمبلی میں آواز بلند کی۔ ان کی توانا آواز کی گونج اتنی تھی کہ ان کا نام ہی “مسٹر سرنگ” رکھ دیا گیا۔

بھٹو سینیئر نے چترال کا دورہ کیا، اور چترال سے غربت کے بادل چھٹنے لگے۔ ان کے ساتھ قادر نواز خان کی مضبوط آواز بھی شامل تھی، جو صوبائی وزیر بھی رہے۔ انہوں نے ہر فورم پر چترال کے لیے آواز اٹھائی۔ انہی کے دور میں لاواری ٹنل پر کام کا آغاز ہوا، اور تقریباً دو میل تک کام مکمل بھی ہوا۔

یہ وہ لوگ تھے جن پر مفاد پرستی یا بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ دور 1976ء تک جاری رہا، جس کے بعد ملک میں طویل فوجی کومت کا آغاز ہوا۔1985ء تا 1988ء جمہوری حکومت آئی، جو درمیان میں توڑ دی گئی۔ اس دوران مرکز میں شہزادہ محی الدین اور صوبے میں سید احمد خان اور ظفر احمد کی نمائندگی تھی۔

اس دور میں اگرچہ کوئی بڑا منصوبہ نہیں آیا، لیکن سڑکوں، پلوں، صحت اور تعلیم کے شعبے میں خاطر خواہ ترقی ہوئی۔

6 اگست 1988ء تا 1990ء سید غفور شاہ اور مولانا محمد ولی کا دور تھا۔ سید غفور شاہ بیگم نصرت بھٹو کی چھوڑی ہوئی نشست پر منتخب ہوئے۔ یہ پیپلز پارٹی کا دور تھا، مگر کوئی بڑا منصوبہ چترال کو نہ مل سکا۔1990 ء تا 1993ء شہزادہ محی الدین اور جماعت اسلامی کے مولانا غلام محمد کی نمائندگی کا دور تھا۔ معمول کی سیاست چلتی رہی۔1993 ء تا 1996ء مولانا عبدالرحیم اور زین العابدین کا دور تھا۔ چترال اپنی روایتی سیاست کا شکار رہا۔ حکومت کس کی تھی اور ہمارے نمائندے کس جماعت سے تھے، یہ مسئلہ ہمیشہ رہا۔ 1997ء تا 1999ء سید احمد خان اور شہزادہ محی الدین کا دور تھا۔ پارلیمنٹ میں آواز کبھی کبھار اٹھتی رہی۔ کچھ منصوبے لائے گئے، کچھ کے لیے صرف مطالبہ کیا گیا۔ لیکن پھر جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت آ گئی۔ 1999ء تا 2008ء آمریت کا دور رہا۔ 2002ء تا 2007ء مولانا عبد الاکبر چترالی، اور صوبے میں مولانا محمد جہانگیر اور مولانا عبدالرحمن نمایاں رہے۔ 2008ء تا 2013ء شہزادہ محی الدین، اور صوبے میں غلام محمد اور سلیم خان کی نمائندگی رہی۔ 2013ء تا 2018ء شہزادہ افتخار الدین، اور صوبے میں سلیم خان، غلام محمد اور بعد ازاں سید سردار حسین شامل تھے۔2018ء تا 2023ء مولانا عبد الاکبر چترالی اور صوبے میں مولانا ہدایت الرحمن کی نمائندگی رہی۔

اب کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، البتہ صوبے میں چترال کی تاریخ میں ہمارے پاس ڈپٹی اسپیکر کا بڑا عہدہ آیا ہے۔ ثریا بی بی کو کچھ کرنے کا موقع ملا ہے، جو استعمال کیا جانا چاہیے۔ مہتر صاحب کا اپنا ایک خاص سیاسی مقام ہے۔ یہ پوری جمہوری تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اسے موقع نہیں ملا، یا کام نہیں کرنے دیا گیا۔ قوم سب جانتی ہے—یہ بھی کہ کس نمائندے کی کیا صلاحیت تھی، اس کے دل میں قوم کا کتنا درد تھا، وہ اپنے لیے کتنا اور قوم کے لیے کتنا سوچتا تھا۔ ممبر بننے سے پہلے اس کی زندگی کیسی تھی، اور بعد ازاں اس کا طرزِ زندگی کیسے بدلا؟ پارلیمنٹ میں اس کی کارکردگی کیسی رہی؟

اگر غور کریں تو چترال میں زیادہ تر میگا پراجیکٹس آمریت کے ادوار میں آئے۔ جب صوبے میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت تھی، تب بھی چترال کے لیے ایک سنہری دور تھا۔ خصوصی نشستوں پر فوزیہ بی بی اور وزیر زادہ کی خدمات قابلِ ذکر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی نمائندے کو خود یہ کہنا چاہیے کہ “میں نے کیا ہے؟” اگر واقعی کچھ کیا ہے، تو یہ اس کی ذاتی صلاحیت سے زیادہ اس کرسی کا کمال ہے۔

چترال سیاسی اور جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ایک طرح کی “بفر اسٹیٹ” ہے۔ یہ پن بجلی کے منصوبوں کے لیے موزوں ترین خطہ ہے۔ معدنیات، سیاحت، اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یقیناً پاکستان کے کئی پسماندہ علاقے ایسے ہیں جہاں چترال کے مقابلے میں کم ترقی ہوئی ہے، لیکن اس طویل جمہوری تاریخ میں ہر نمائندے کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ انہوں نے اس مٹی کے لیے کیا کچھ کیا ہے۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم کریڈٹ لینے سے آغاز کرتے ہیں، اور کریڈٹ دینے پر بات ختم ہو جاتی ہے۔ جمہوری ادوار میں شروع ہونے والے کئی منصوبے حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی ختم کر دیے جاتے ہیں۔ چترال کی بدقسمتی جنرل ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوئی، جب انہوں نے لواری ٹنل کا منصوبہ روک دیا۔ پھر یہی منصوبہ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں آؤٹ سورس ہوا، اور فنڈز ملتان منتقل ہو گئے۔

ایسے کئی “ڈرامے” چترال کی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔

بیگم نصرت بھٹو جب چترال سے الیکشن لڑ رہی تھیں تو مسلم لیگ کے کارکن لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ “اگر اتنی مخلص ہیں تو لاڑکانہ سے الیکشن کیوں نہیں لڑتیں؟” آج یہی سوال طلحہ محمود پر بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ وہ کوہستان سے کیوں نہیں لڑتے؟

کوہستان ایک ایسا پسماندہ علاقہ ہے جو کبھی چترال کے ساتھ انتخابی حلقہ تھا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ رہنما خود چترال آتے ہیں یا انہیں “لایا” جاتا ہے؟ یہ ایک سیاسی کھیل ہے جس میں ایک طرف مقامی قیادت ان کی مخالفت کرتی ہے، اور دوسری طرف بڑی جماعتوں کی دعوت پر وہ آتے ہیں۔

عوام کو جو تاثر دیا جاتا ہے وہ مضحکہ خیز ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے پیچھے کچھ نیتیں پنپ رہی ہوں، لیکن بظاہر عوام کو فائدہ پہنچتا ہے۔ طلحہ محمود کی پارلیمنٹ میں اٹھائی گئی آواز ایک توانا آواز ہے، اور پسماندہ چترال کی حقیقی ترجمانی کرتی ہے۔ 13 سالوں میں تورکھو روڈ کی کرپشن پر کسی نے بات نہیں کی۔ ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں میں کچھ ایسے نمائندوں کی تاریخ بھی موجود ہے جنہوں نے کبھی ایک لفظ نہیں بولا۔ یا تو ان کی آواز صدا بہ صحرا تھی، یا ان کی “اوقات” ایسی نہ تھی۔ البتہ ذاتی مفادات کے ثبوت قوم کے پاس ضرور ہیں۔ یہ تمام نمائندے اگر کسی پلیٹ فارم پر آ کر بات کریں، تو ان کا ماضی ان پر ہنستا ہے۔ شہزادہ افتخار الدین نے کچھ مستقبل بینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے منصوبے لائے، مگر قوم نے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest