Inayatullah Faizi

پشاور میں سینما کا عروج و زوال

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
دنیا کے دوسرے قدیم اور تاریخی شہروں کی طرح پشاور نے بھی زمانے کے کئی رنگ دیکھے۔ چار ہزار سال پہلے دریائے باڑہ پشاور کے شہر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے عین وسط میں بہتا تھا۔ سمرقند، بخارا، کاشغر اور کابل سے آنے والے تجارتی قافلے دریا کے کنارے پڑاؤ کرتے تھے۔ کاروان سرائے میں کہانیاں سنانے والے قصے سناتے تھے۔ اس وجہ سے دریائے باڑہ کے کنارے آباد کاروان سرائے کو قصہ خوانی کا نام دیا گیا۔ وقت نے پلٹا کھایا تو قصہ خوانی بازار بن گیا۔ پھر فصیلِ شہر کی بنیاد رکھی گئی، اس کے سولہ دروازے وجود میں آئے۔ فصیل کے اندر کا علاقہ شمال اور جنوب سے آنے والے دشمنوں سے محفوظ قرار دیا گیا۔ دہلی اور بخارا کی طرح شام ہوتے ہی دیوہیکل دروازے بند کیے جاتے تھے، صبح ایک بار پھر دروازے کھول دیے جاتے تو چہل پہل شروع ہوتی۔

فصیلِ شہر سے باہر یا علی مردان کا محل اور باغ تھا یا بالا حصار نام کا قلعہ۔ یہاں تک کہ انیسویں صدی میں انگریزوں کا دور آیا۔ 1840ء سے 1860ء تک فرنگیوں کی آمد و رفت جاری رہی۔ یہاں تک کہ کمپنی بہادر نے پہلے پشاور میں تجارتی منڈی قائم کی، پھر کمپنی کی جگہ تاجِ برطانیہ نے لے لی، اور تاجِ برطانیہ کے ساتھ مغربی تہذیب نے پشاور میں ڈیرے ڈال دیے۔

سینما کی ثقافت بمبئی سے کراچی اور لاہور کے بعد پشاور پہنچی۔ سینما گھروں میں پہلے خاموش فلمیں دکھائی جاتی تھیں، بعد میں بولنے اور گانے والی سیاہ و سفید فلموں کا دور آیا جنہیں \”ٹاکیز\” کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد رنگین فلموں کا زمانہ آیا۔ اس طرح پشاور میں مغربی تہذیب اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوئی۔

قیامِ پاکستان کے وقت پشاور میں سینما گھر موجود تھے۔ بمبئی سے آنے والی فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ جب پاکستان قائم ہوا تو لاہور نے بمبئی کی جگہ لے لی، تاہم بمبئی کی فلمیں بھی آتی رہیں۔1950ء فصیلِ شہراور کابلی گیٹ سے باہر دو سینما گھر تھے۔ ایک کا نام \”تصویر محل\” تھا، دوسرے کا نام \”ناولٹی سینما\” تھا۔ اس بناء پر کابلی دروازے سے ڈبگری اور نمک منڈی جانے والے راستے کو \”سینما روڈ\” کہا جاتا تھا۔ اب یہ روڈ خیبر بازار کے پیچھے سے گزرتا ہے، اس کا نام تبدیل نہیں ہوا۔

آسامائی گیٹ کے باہر قلعہ بالا حصار کے سامنے \”ناز سینما\” تھا۔ نذر باغ کے علاقے میں \”فردوس\” کے نام سے سینما گھر قائم ہوا۔ پجگی روڈ پر بننے والا \”صابرینا سینما\” 1968ء میں جدید سینما ہال سمجھا جاتا تھا۔ 1970ء کے عشرے میں \”امان سینما\” بن گیا، تو ایئر کنڈیشنڈ ہونے کی وجہ سے اس کی شہرت نے سب کو مات دے دی۔ شہر کی توسیع کے بعد گلبہار میں \”عشرت سینما\” قائم ہوا، صدر میں دو سینما ہال \”فلک سیر\” اور \”کیپٹل\” قائم ہوئے تھے۔

1980ء کے عشرے میں پی اے ایف کا نیا سینما ہال بن گیا۔ ایک سینما ہال کا نام \”شمع\” بھی تھا۔ اب یہ سینما ہال بند ہو چکے ہیں۔ بعض گرائے گئے، ان کی جگہ رہائشی اور کاروباری پلازے تعمیر ہوئے۔ جو نہیں گرائے گئے، وہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

بظاہر اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی وجہ سے سینما کلچر ختم ہو گیا، فحاشی کا ایک ذریعہ بند ہوا۔ مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے، اور اس کی صداقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وقت بدل گیا، سینما گھر کی تفریح لوگوں کو گھروں پر میسر آ گئی۔ پشاور کے نوجوان پنجاب سے آنے والے دوستوں اور کاروباری شریکوں کو تفریح کے لیے جمرود کی سیر کرواتے تھے، اب کوئی اپنے دوست کو لے کر جمرود نہیں جاتا۔ وجہ یہ ہے کہ جمرود والی تفریح گھر پر دستیاب ہے بلکہ اسمارٹ فون کی صورت میں دفتر میں بھی ہے اور جیب میں بھی رکھا ہوا ہے۔

اب ٹکٹ گھر کی کھڑکی پر دھکے کھانے اور گیٹ کیپر کا پیچھا کر کے بلیک میں ٹکٹ کے لیے منت سماجت کی مشقت سے چھٹکارا مل گیا ہے۔ سینما ہالوں کے بند ہونے کے بعد ہر نئی فلم سے وابستہ اشتہارات کا کلچر بھی دم توڑ گیا۔ شہر کے نامور آرٹسٹوں سے قد آدم اشتہارات تیار کرائے جاتے تھے جن میں نئی فلم کے مناظر کی پوری عکاسی ہوتی تھی۔ یہ اشتہارات سینما گھر کی دیواروں پر بھی نصب کیے جاتے تھے، اخبارات میں بھی آتے تھے۔

اس زمانے میں ایک لطیفہ بڑا مشہور ہوا تھا۔ کسی سادہ لوح دیہاتی نے لیڈی ریڈنگ اسپتال سے باہر نکل کر دیکھا تو ناز سینما کی دیوار پر کسی فلم کا رنگین اشتہار تھا۔ لڑائی مارکٹائی کے منظر میں اداکاروں کو خون میں لت پت دکھایا گیا تھا۔ سادہ لوح دیہاتی نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی:
\”اے خدا! تو رحیم ہے، ان شہیدوں کے صدقے کشمیر کو آزاد کر دے!\”

ایک اور دیہاتی کا قصہ مشہور ہے، وہ خواندہ تھا۔ اس نے سینما گھر کے اشتہار میں \”آج شب کو\” دیکھا تو ساتھی سے کہا: \”یار! آج ہم یہ فلم دیکھیں گے ’آجش بکو‘، ضرور اچھی فلم ہوگی

وقت نے پلٹا کھایا تو سب کچھ مٹی میں مل گیا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *