دھڑکنوں کی زبان
محمد جاوید حیات
بڑی عید کے لیے چند ہی دن رہ گئے ہیں۔ اس بار گرمی میں بجلی کا بل زیادہ آئے گا۔ گرمی بڑھی تو اخراجات میں اور اضافہ ہوگا۔ بچے کہیں کٹن کے کپڑے نہ مانگیں۔ فریج اب قسطوں پہ ہے۔ روز اس کے چلنے کی آواز سن کر دل پہ ہوک سی اٹھتی کہ مصنوعی، مشینی چیزوں کا اعتبار ہی کیا ہے، کہیں خراب نہ ہو جائے۔ اگر ایسی آفت آپڑی تو مرمت کے پیسے ہی نہیں۔
ڈاکٹر نے بیگم کا معائنہ کرکے کہا تھا کہ ہیٹ سٹروک کا خطرہ ہے، ناتوانی ہے، کمزوری بڑھی ہے۔ اس بار مزدوری کہیں ایڈوانس میں مل جائے۔ ٹھیکیدار نے ایک آدھ بار کہا بھی تھا، بھول جاتا ہے، بھول جائے گا، ایک بار بھی کام کی سائٹ پہ نہیں آیا۔
گھر آتے ہوئے سوچتے سوچتے گھر پہنچا۔۔۔ سپنوں کی دنیا تھی۔ بچوں کے لیے عید کی خریداری، بیگم کے لیے اس کی مرضی کے جوڑے، انم کو گڑیا، پھر عید کے دن قربانی۔۔۔
گھر کی دہلیز آئی۔۔۔ لگا آج گھر میں سوگ کا سماں ہے۔ گھر میں داخل ہوا، سب افسردہ تھے۔ انم نمدیدہ تھی۔ اس کی آنکھیں سوگوار تھیں۔ جلدی میں سوال کیا
\”کیا ہوا؟\”
اس کی بیگم نے روہنی آواز بنا کے کہا کہ \”انم نے ٹیلی کا اسکرین۔۔۔\” آواز اس کے حلق میں اٹک سی گئی۔
یہ سن کر اس کو جھٹکا سا لگا۔ تیس ہزار کا سمارٹ فون، وہ بھی قسطوں پر، قسطیں بھی پوری نہیں ہوئیں۔ اپنے آپ کو برآمدے میں پڑی چوبی تخت پہ گرا دیا۔ گھر میں خاموشی چھا گئی۔
وقفے کے بعد اس نے فون مانگا۔ بھتیجے کو بلایا۔ بھتیجے نے کہا
\”چچا، اس کا اسکرین ٹوٹ گیا ہے، پانچ ہزار روپے میں لگے گا۔\”
اس کو پھر کرنٹ سا لگا۔۔۔ مزدوری، گھر کے خرچے، عید کی خریداری، بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ خریدنا۔۔۔
بھتیجا چلا گیا۔ اس کے ہاتھ میں اس کا سمارٹ فون تھا۔ یکدم اس کو لگا کہ وہ انم ہے۔ اس کے ہاتھ میں اس کا اپنا بنایا ہوا گڑیا ہے۔ کل ہی انہوں نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر گھروندا بنایا ہے۔ اس کی گڑیا کی شادی ہوگی۔ کیچڑ سے روٹی بنائیں گے، اخروٹ توڑ کر اس کے چھلکے سے برتن سجائیں گے، پرانے کپڑوں کے چھیتڑے اور ٹکڑے لا کے بیٹی کے لیے بستر بنائیں گے۔
کہیں سے چند اخروٹ لا کے توڑ کے مغز اخروٹ سے مہمانوں کی ضیافت کریں گے۔ کچھ شیشے کے ٹکڑے ہوں گے۔۔۔
پھر ان کو لگا کہ وہ انم ہے۔۔۔ اس کے ہاتھ میں اس کے ابو کا سمارٹ فون ہے، وہ کارٹون دیکھے گی، گیم کھیلے گی، میوزک سنے گی۔ یہ اس کا کھلونا ہے۔
انم کو یہ پتہ نہیں کہ اس کھلونے کی قیمت کیا ہے۔ کیا یہ وقت کی مجبوریاں ہیں یا زندگی کی مشکلات؟ وقت کے کیا تقاضے ہیں؟ وقت خود نہیں بدلتا، زندگی بدل دیتا ہے، اپنے ساتھ مجبوریاں لاتا ہے۔
یہاں زندگی آسان لگتی ہے، وہاں بہت مشکل ہے۔ یہاں سمارٹ فون کتنا خوبصورت کھلونا ہے، کثیر المقاصد، کئی کھلونے ایک کھلونے کے اندر، کئی گیمز اس کے اندر۔ بچہ گھنٹوں اس سے کھیلے گا۔ لیکن اس کی قیمت اس کے ابو کی پوری زندگی ہے۔ اس کو حاصل کرنے میں عمریں بیتتی ہیں۔
انم کی آنکھوں میں افسردگی ہے۔ ابو کے سامنے بت بنی کھڑی ہے۔ ابو سوچتا ہے کہ اگر یہ سمارٹ فون مرمت نہ ہوئی تو انم کسی کے ہاتھ میں سمارٹ فون دیکھ کر للچائے گی، تڑپ جائے گی۔ اس وقت اس کے ابو کی جان نکل جائے گی۔
وہ انم کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنے قریب لاتا ہے، پھر چھوڑ دیتا ہے۔ سمارٹ فون ہاتھ میں لیے گاؤں کی دکان میں چلا جاتا ہے۔
\”بیٹا، یہ ذرا چیک کریں۔\”
\”انکل، اس کا اسکرین ٹوٹا ہے، چار ہزار میں لگے گا۔\”
\”بیٹا، ابھی بنا کے دیں، پیسے کل لے لیں؟\”
\”انکل؟\”
\”ہاں بیٹا، سفید داڑھی پہ اعتبار کر۔۔۔\”
اسکرین لگایا جاتا ہے۔ عشاء کی اذان ہو رہی ہے۔ چچا مسجد میں داخل ہوتا ہے۔ ایک نمازی چچا کو قریب بلا کر ہاتھ اس کی جیب میں ڈالتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ پانچ ہزار کا نوٹ ہے۔۔۔ اس کے پچھلے سال کی مزدوری۔۔۔
چچا یکدم مسجد سے نکلتا ہے۔ موبائل کی دکان پہنچتا ہے۔ کہتا ہے
\”یہ لو بیٹا، اپنا معاوضہ۔\”
پھر دوڑ کر مسجد پہنچتا ہے۔۔۔ جماعت کی ایک رکعت اس سے فوت ہوئی ہے۔ دل بار بار مہربان خدا کا شکر ادا کرتا ہے۔
نماز پڑھنے کے بعد گھر میں داخل ہوتا ہے۔ انم کو قریب بلا کر اس کی پیشانی پہ طویل بوسہ دیتا ہے۔ سمارٹ فون نکال کے اس کے ہاتھ میں دیتا ہے اور کہتا ہے
\”یہ لو بیٹا، تمہارا کھلونا۔۔۔\”
بیوی آہستگی سے کہتی ہے
\”مرمت پہ کتنا خرچہ آیا؟\”
کہتا ہے
\”چار ہزار۔۔۔\”
بیوی تڑپ اٹھتی ہے۔۔۔ وہ انم کی ماں کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور کہتا ہے
\”مہربان اللہ بندوبست کرتا ہے۔۔۔\”
ان کی بیوی کہتی ہے
\”زندگی جینا کتنی مشکل ہے۔۔۔\”

