شاگرد کا مقام 

دھڑکنوں کی زبان

محمد جاوید حیات

نورالہادی ناجی صدر تنظیم اساتذہ اپر چترال کا دعوت نامہ ملا تھا۔ تعلیمی کانفرنس کا بلاوہ تھا۔ وہاں \”مطلوب استاذ \” کے موضوع پر بات کرنی تھی۔۔ تصور میں سٹیج پہ ہوتا۔۔ مطلوب استاذ کے اوصاف گنواتا۔ الفاظ ڈھونڈتا جملے بناتا۔ سامعیں سامنے ہوتے۔۔

بات کرنے والا نہ کوٸی مقرر نہ عالم فاضل۔۔ شاید اندھوں میں کانا اس لیے بھی منتظمین نے نام پہ قرعہ فال نکالا ہو۔۔ تنظیم اساتذہ اساتذہ کی فعال اور منظم تنظیم ہے 1969 سے کام کر رہی ہے اساتذہ کی نظریاتی تربیت، دینی تربیت، قران و حدیث سے جوڑنے کی سعی، بچوں کی تعلیم و تربیت اسلامی نہج اور قومی نصب العین کے مطابق کرنے کی کوشش میں لگی ہوٸی ہے۔ مختلف نوعیت کی خدمات انجام دے رہی ہے۔ غریب بچوں کی اعانت سے لے کر اساتذہ کی بیداری تک بے مثال کام کر رہی ہے۔ مختلف وقفوں سے بیداری پروگرامات، دروس قران و حدیث اور کافرنسیں کراتی ہے اساتذہ کو جمع کرکے ان تک اپنا پیغام پہنچاتی ہے۔

یہ تعلیمی کانفرنس بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن أفیسر مفتاخ الدین میر محفل تھے۔ گورنمنٹ ہاٸر سکینڈری سکول شاگرام کے پرنسپل حفیظ الدین کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے سٹیج پہ صدر تنظیم نورالہادی ناجی اور فضل الرحمن صاحب بیٹھے ہوۓ تھے۔ سٹیج سیکرٹیری فضل الرحمن تھے۔ ہال مختلف سکولوں کے پرنسپلوں اساتذہ (معلمین، معلیمات) سےکھچا کھچ بھراہواتھا۔ یہ فعال صدر اوران کے کابینہ کی کاوشوں کا ثمر تھا۔ کارواٸی شروع ہوٸی۔ حسب پروگرام تلاوت، نعت، تنظیم کی سرگرمیاں، پیغام اور ساتھ مطلوب استاذ کے موضوع پر تقریر ہوٸی۔۔ محفل قابل دید تھی اس لیے کہ معماران قوم جمع تھے۔ ایک عزم، ایک سنجیدگی، ایک معیار نظرآتاتھا۔ پروگرام میں ہر سکول کے ایک منتخب استاذ کو(بسٹ ٹیچر ایوارڈ بہترین معلم کے لیے توصفی انعام) کے طور پرسرٹیفیکٹ دینی تھی۔ ہر سکول سے منتخب استاذ تشریف فرما تھا۔۔ اساتذہ کے نام پکارے جارہے تھے ایک نام پکارہ گیا۔۔شکیلہ انجم۔

گورنمنٹ زنانہ ہاٸی سکول شاگرام کی معلمہ جوٹی ٹی پوسٹ پہ کام کر رہی ہیں ان کو بہترین معلمہ کی توصیفی سند دی جارہی ہے۔ ۔شکیلہ انجم سٹیج پہ أٸیں اور ہاٶس کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا کہ اس محفل میں میرے دو اساتذہ کرام موجود ہیں جب تک یہ دونوں میرے اساتذہ اس سٹیج پہ أکے یہ سند مجھے نہیں دیں گے میں اعزاز قبول نہیں کروں گی۔ ایک ثانیے کو ہال میں موجود سامعین پہ سناٹا چھا گیا پھر اس نے اپنے اساتذہ کانام لیا۔ میرے استاذ محترم حبیب الرحمن جب دوسرے استاذ کا نام پکارہ تو اس استاذ کا سر سہم سے جھک گیا اس لیے کہ ابھی اس نے \”مطلوب استاذ\” کے موضوع پر بات کی تھی اس کو اپنے مقام کااندازہ نہ تھا کہ واقع محمد جاوید حیات شکیلہ کے لیے محترم استاذ کا درجہ رکھتا ہے۔ سوچتا ہوں شاگرد کا مقام استاذ سے پرے ہے ایک شاگرد ہی استاذ کی پہچان ہے۔ شکیلہ \”استاذ ذادی\” ہیں ان کے ابو عظیم استاذ اورعظیم قلمکار گزرے ہیں کھوار زبان و ادب مولانگاہ سے سجتا تھا۔ یہ کھوار زبان و ادب کے ستون تھے ۔انہوں نے اپنے بچوں میں بھی وہ احترام انسانیت، ننگ، ناموس اور معیار بھر دیا ہے اس لیے ان کی اولاد ان کے درست علمی وارث ہیں۔ شکیلہ اپنے ابو کی تربیت یافتہ ہیں لہذاان کو اپنے شاگرد ہونے کے مقام کا پتہ ہے۔ اہل محفل کو یہ انداز بہت اچھا لگا۔ شکیلہ کے اساتذہ کوان پہ فخر ہوا۔ جب یہ سٹیج پہ ان کے ساتھ کھڑی تھیں تو محسوس ہوا کہ معاشرہ مخلص اساتذہ اور عظیم شاگردوں سے خالی نہیں۔

ڈی ای او نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں میر کارواں ہونے میں شک نہیں ۔۔ مجھے ان دو اساتذہ اور ان کی تابعدار شاگردانی پہ رشک آیا۔ مجھے ایسی محفلوں میں ایک طمانیت حاصل ہوتی یے اس لیے کہ ہمیں احساس ہوتاہے کہ ہماراکام مہا کام ہے اور معاشرے میں استاذ کامتبادل کوٸی نہیں انہوں نے صدر تنظیم اور ساتھیوں کی کوششوں کو سراہا۔تنظیم اساتذہ خواتین کی سربراہ محترمہ سرداران کی کاوشوں کو بہت شاباش دی گئی کہ انہوں نے قلیل مدت میں اساتذہ کو منظم کیا ہے۔

پرنسپل حفیظ الدین  نے اساتذہ سے کہا کہ وہ خلوص سے پر ہوں انہوں نے اپنی مثال دی کہ وہ زندگی میں کسی امتحان میں بھی ناکام نہیں ہوۓ یہ صرف شاگردوں سے ان کے خلوص کا نتیجہ ہے۔ کانفرنس میں سولہ مرد اساتذہ اور دس خواتین اساتذہ کو توصیفی اسناد دی گٸیں۔ یہ کامیاب تعلیمی کانفرنس شام تک جاری رہی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest