داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
عربی کا مقولہ ہے عالم کی موت عالم کی موت کے مترادف ہوتی ہے جب بھی کوئی بڑا عالم دنیا سے رخصت ہوتا ہے اس مقولے کی صداقت پر ہمارا یقین مزید پختہ ہوجاتا ہے۔
خیبر پختونخوا کے مشہور عالم دین مولانا عبدالرحیم نقشبندی 70سال کی عمر میں اس عالم فانی سے عالم جاودانی کو سدھار گئے تو ایسا لگا جیسے تفسیر اور حدیث کے علوم کا ایک چشمہ خشک ہوگیا ہو۔ اگرچہ اس میدان میں لاکھوں بلکہ کروڑوں شہ سوار ابھی موجود ہیں تاہم مرحوم کا انفرادی وصف انہی کے ساتھ دفن ہوگیا۔ اس انفرادی وصف میں ان کا تقویٰ، اخلاص، حسن بیان اعلیٰ پایے کی خصوصیات کا درجہ رکھتے تھے۔
آپ 1954ء میں چترال کے گاوں نچھاغ اویر میں شاعطیہ قبیلے کے صوفی عیدا خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ قرآن ناظرہ کی تعلیم گھر پر حاصل کی فنون کی تعلیم کے لئے چترال کے بڑے عالم مولانا مستجاب نقشبندی کے سامنے زانو تلمذ تہہ کیا جو رشتے کے لحاظ سے ان کے تایا لگتے تھے اور ایون نامی بستی میں مقیم تھے۔ انہی کی ہدایت اور رہنما ئی میں پشاور کے بڑی درس گاہ دارالعلوم سرحد کی طرف رجوع کیا جہاں آپ کے ابتدائی اساتذہ میں مولانا محمد امیر بجلی گھر کا نام بھی آتا ہے۔
چند سال یہاں گذار نے کے بعد جامعہ اشرفیہ لاہور میں مولانا محمد موسیٰ روحانی البازی اور دیگر جید علمائے کرام کی زیر نگرانی اسلا می علوم کی تکمیل تک زیر تعلیم رہے۔ علمائے حق کا یہ دستور ہے کہ سب سے قابل، ذہین اور فطین طالب علموں کو سند فراغ دیکر مدرس کے منصب پر فائز کیا جاتا ہے۔ 1976ء میں آپ کی دستار بندی کے ساتھ ہی آپ کو جامعہ اشرفیہ میں مدرس مقرر کیا گیا اور تاحیات آپ نے یہ ذمہ داری بحسن و خوبی نبھائی۔ جو ن 1986ء میں مجھے اپنے والد گرامی مولانا محمد اشرف کے ہمراہ لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو مسلم ٹاون میں جامعہ اشرفیہ حاضری اور آپ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ ظہرانے میں مولانا فیاض الدین صاحب بھی مد عو تھے۔ ہم نے اپنے پڑوسی طالب علم حافظ دینار کو بلانے کی استدعا کی چنانچہ محفل جمتی دیر تک ہم علم کے موتی چنتے رہے۔ قدآور شخصیات کی قربت میں رہنے اور پلنے، بڑھنے کا یہ امتحان ہوتا ہے کہ ان کے سایے میں بندہ اپنا قد کاٹھ کس سطح پر رکھے تاکہ بے ادبی کا احتمال نہ ہو۔
مولانا عبد الرحیم نقشبندی، مولانا فیاض الدین نقشبندی اور مولانا سلمان نقشبندی بھی اس امتحا ن سے گذر ے اور بخیروخوبی گذرے انہوں نے قرابت داری کی وجہ سے مولانا محمد مستجاب نقشبندی کی قربت سے فیض پایا اور ان کے وسیلے سے ان کے مرشد مولانا فضل علی مسکین پوری سے فیض حاصل کیا۔ ان کے پیر بھائی مولانا عبد الغفور مدنی سے فیض حاصل کیا۔ ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی فیض رسان کے درجے تک پہنچایا۔ اس میں سالک اور مرشد کا یکساں کمال نظر آتا ہے۔ مرشد نے سالکین کوآگے بڑھنے دیا اور سالکین نے مرشد کا دامن پکڑ کر پھونک پھونک کر قدم رکھا۔ اداب شیخ میں کمی نہ آنے دی اور سلوک کی منزلوں کو بھی کھوٹا نہ ہونے دیا۔
یہ بہت نازک مرا حل ہیں گویا تنے ہوئے رسے پر مسلسل چلتے رہنا ہے جس میں ان کو کامیابی ہوئی جامعہ اشرفیہ میں انہوں نے فرض منصبی کے طور پر فنون کی کتا بیں بھی پڑھائیں تفسیر جلالین بھی پڑھائی زیا دہ وقت صحاح ستہ اور حدیث کی دیگر کتابیں پڑھاتے رہے۔ بیماری کے دوران بھی پہئیے والی کر سی پر دارالحدیث آتے اور تشنگان علم کی پیاس بجھاتے رہے۔ آپ نے کئی مساجد اور مدارس قائم کئے۔ کئی مساجد اور مدارس کے قیام میں دامے، درمے، سخنے مدد فرمائی۔ آیام جوانی میں مولانا محمد مستجاب نقشبندی کے ہمراہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے حجاز مقدس تشریف لے گئے تو مکہ مکرمہ کے ایک عالم نے آپ کو مکہ میں قیام کی دعوت دی اور کہا کہ یہاں آپ کو درس و تدریس کے موا قع ملینگے۔ آپ نے اپنے مرشد سے اس پیشکش کا ذکر کیا، مر شد نے فرمایا مکہ مکر مہ میں رہنا سعادت ہے لیکن یہاں اپنے وطن کے لوگوں کی دینی خد مت کا موقع نہیں ملے گا اپنے وطن کے لوگوں کی دینی خدمت ذاتی آسائش اور ذاتی سعادتیں سمیٹنے سے زیا دہ بہتر ہے۔ وہاں جاکر رہو وطن کے لوگوں کی دینی خدمت کرو اپنا دل حرمین شریفین کی محبت میں لگاو۔ دونوں سعادتیں آپ کو نصیب ہونگی۔ چنانچہ آپ نے ہزاروں طالب علموں کو نہ صرف پڑھایا بلکہ ان کی مالی مدد بھی کر تے رہے۔
چترال کے اندر مدارس کی مدد کرتے رہے۔ آپ کے دونوں صاحبزادے محمد نعمان اور محمد مستجا ب دینی علوم سے بہرہ ور ہیں اور درس و تدریس سے منسلک ہیں۔ 23اگست 2024کو آپ نے وفات پائی آپ کے بھتیجے مولانا سلمان نقشبندی نے نمازجنازہ کی امامت فرمائی اور آپ کولاہور کے شیر شاہ قبرستان میں آپ کے اساتذہ کے پہلو میں دفن کیا گیا
آسمان تیر ی لحدپہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے۔

