sher wali khn aseer

یارخون ایک قدیم گزرگاہ

شیر ولی خان اسیر

یارخون وادی سے متعلق تحریریں تاریخی کتب اور اخباری کالموں میں مرقوم ہیں جن میں تھوڑی بہت اختلافات بھی موجود ہیں۔ اس کی وجہہ تسمیہ میں نااتفاقی ہے۔ البتہ ایک بات پر سب متفق ہیں کہ یارخون وادی زمانہ قدیم سے بیرونی حملہ آوروں، مہاجروں اور تاجروں کی گزرگاہ رہی ہے۔ آریوں کی آمد سے لے کر ڈیورنڈ لائن کے وجود میں آنے تک وقتاً فوقتاً یہ وادی شاہراہِ ریشم کا ایک اہم اور محفوظ ترین حصہ رہی ہے۔ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ مشرقی ترکستان کے ترک، قزاح، تاجک ،ازبک وغیرہ حجاج اور تجار درہ برغل سے ہوتے ہوئے یارخون سے گزرتے تھے۔ وہ اپنے ساتھ قیمتی پوشاک، برتن، زیورات ، سونا، چاندی لاتے تھے اور یارخون کے مقامی باشندوں کو غلہ اور جانوروں کے لیے چارے کے بدلے بیچتے تھے۔ اس کاروبار کے سبب یہ وادی چترال کی خوشحال ترین وادی تھی۔ یہاں کے لوگ اپنا غلہ، گھی، پٹی اور قالین اور دوسری دستکاری کی اشیاء چترال لاکر بیچتے تھے اور بدلے میں چاول، گڑ، نمک ، کپڑے اور پاپوش خریدتے تھے۔

جب ڈیورنڈ لائن بین الاقوامی سرحد قرار پائی اور شمال کے لوگوں اور چترال کے درمیان آزادانہ آمد و رفت اور تجارت منقطع ہوگئی تو اس دن سے یارخون غربت کے اندھیروں میں گرنے لگا۔ ریاستی دارالحکومت چترال سے دو ڈھائی سو کلومیٹر دور، سڑکوں اور پلوں سے محروم اس وادی کے باسیوں کو شدید مشکلات سے گزرنا پڑا۔

سر محمد ناصر الملک جب مہتر بنے تو انہوں نے اپنے وزراء کی مشاورت سے چرس کا بیج افغانستان سے منگوا کر یارخون میں کاشت کروائی جو کامیاب رہی۔ کوئی دو ڈھائی دھائیوں تک یہ پیداوار غریب لوگوں کے لیے واحد بڑا ذریعہ معاش رہی۔ معاشی حالت اس حد تک بہتر ہوئی کہ لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے لگے اور اپنے بل بوتے پر غیر آباد زمینوں کو آباد کرکے زرعی پیداوار میں اضافہ کیا۔ریاست چترال کے (سابق) شمال مغربی سرحدی صوبہ پاکستان کے ساتھ بحیثیت ضلع ضم ہونے کے بعد چرس کی کاشت اور کاروبار پر پابندی لگی جس نے پھر اس پس ماندہ وادی کو معاشی مشکلات کا شکار کر دیا۔ یہاں کے جوان روزگار کی تلاش میں پشاور، اسلام آباد اور کراچی جانے لگے۔ علاقے میں افرادی قوت ختم ہوگئی جس کے باعث جو تھوڑی کاشتکاری اور گلہ بانی کی آمدنی تھی وہ بھی ختم ہوگئی۔ 1983 میں ہزہائنس شاہ کریم الحسینی آغا خان چہارم نے چترال کا دورہ کیا اور اپنی آنکھوں سے ہماری معاشی حالت کا جائزہ لیا اور اسی سال آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کا اجرا کرایا۔ جس کی مسلسل اور انتھک کوششوں کے نتیجے میں عوام کی معاشی، علمی اور صحت کی نگہداشت کے شعبوں میں انقلاب آیا ۔

آج یہ وادی کافی خوشحال ہے۔ تعلیم کی شرح بڑھ گئی ہے اور غیر آباد زمینوں کی آباد کاری سے سر سبز شاداب ہوگئی ہے۔ پھلوں کی ترقی سے سالانہ کروڑوں روپوں کے سیب اور خشک میوے نیچے مارکیٹ پہنچ جاتے ہیں البتہ سڑکوں کی ناگفتہ بہہ حالت کے سبب زمینداروں کو ان کی پیدوار کی نصف قیمت بھی نہیں مل رہی ہے۔ خراب سڑک اس کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنی کھڑی ہے۔ وادیٔ یارخون دفاعی، سیاحت اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ زمینی رابطے کے لحاظ سے اہم ترین وادی ہے کیونکہ یہ درۂ بروغل، دروازہ اور کنخون کے ذریعے افغانستان وخان سے منسلک ہے۔

درۂ بروغل افغانستان کی طرف کھلنے والا چترال کا سب سے پست درہ ہے جس کی اونچائی کم و بیش ساڑھے بارہ ہزار فٹ ہے۔ ان دروں کے ذریعے تاجکستان، کاشغر، قزحستان،کرغزستان وغیرہ ریاستوں سے مستقل زمینی رابط بہت آسان ہے۔

دشت پامیر، درۂ درکھوت اور تھوئی کے ذریعے گلگت بلتستان سے مربوط ہے۔ دوست ملک چین کے قریب ہے۔یہ قدیم زمانے سے پر امن لوگوں کا مسکن ہے۔5۔سیاحوں کے لئے جاذب نظر ہے۔

اگر ہماری حکومت خاص کرکے ہماری فوج اس کی طرف خاص توجہ دے تو یہ پھر سے معاشی لحاظ سے خود کفیل اور ایک مضبوط دفاعی فرنٹ کا کردار ادا کر سکتی ہے۔اس وقت بروغل تک پکی سڑک اور درہء بروغل کو شمالی ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے کھولا جائے نہ صرف وادی یارخون اور بروغل کے عوام خوشحال زندگی گزارنے کا قابل ہو سکتے ہیں بلکہ ہمارے دو اضلاع کے علاؤہ کے پی کے کے بہت سے ضلعوں کو معاشی فائدے دے سکتا ہے ۔

Related:

Yarkhun – the beautiful valley of Chitral.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest