یک جہتی
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
اخبارات میں خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم خان کنڈی، وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اور وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی کوایک میز پریکجا دیکھ کرپسماندہ، غربت زدہ اور مفلوک الحال صوبے کے عوام کوبیحد خوشی ہوئی اس صوبے کے عوام نے سیاسی دشمنی اور رقابتوں کی بھاری قیمت چکائی ہے اس لئے عوام کسی بھی قسم کی محاذ ارائی کے حق میں نہیں ہیں۔ وزیراعلیٰ ہاوس پشاور میں منعقدہونے والی سیاسی اورقومی بیٹھک اس حوالے سے روشنی کی ایک کرن اورحالات میں بتدریج بہتری کی ایک نوید تھی بیٹھک میں سیاسی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی اورصوبے کے اندر ہم آہنگی کوفروغ دے کر اہم مسائل پرمتفقہ لاءحہ عمل اختیارکرنے پراتفاق کیا،ایک ہفتہ پہلے تک اس طرح کی بیٹھک ناممکن نظر آتی تھی کیونکہ بقول مرچکئی‘‘طوطارام نہ منی‘‘کابڑا شورتھا یادش بخیر مرچکئی1971 میں ریڈیو پاکستان پشاور کے مشہور اور مقبول پروگرام کے کردار تھے ان کا اصل نام عبداللہ جان مغموم تھا،ان کی آواز میں ایک جادو ہوا کرتا تھا،ان کوبات کہنے کے ہزار ڈھنگ آتے تھے وہ طنزیہ ہنسی ہنستا توسامعین عش عش کراُٹھتے تھے،پشتو کامذکورہ پروگرام دراصل آل انڈیا ریڈیو اور کابل کے منفی پروپیگینڈے کاجوابی پروگرام تھا اور کاونٹر پبلسٹی کاشہکارتھا اس میں ایک ہی کردار ہوتا تھا وہ اُس روز کے خبر کولے لیتا اُس خبر پردشمن کے تبصرے کوبیان کرکے طنزیہ ہنسی ہنستا اور پھر اپنی بات شروع کرتا ،اس کی بات چند اہم نکات اور واقعات پرمشتمل ہوتی ہرنکتہ اور ہرواقعہ کو بیان کرنے کے بعد مرچکئی کہتا ’’بات یہ ہے مگرطوطا رام نہیں مانتا‘‘پھر اگلی بات ختم کرکے طنزیہ ہنسی ہنسنے کے بعد مرچکئی کہتا’’نہیں مانتا ،نہیں مانتا،طوطا رام نہیں مانتا‘‘یوں مرچکئی کے مشہور کردار کے ساتھ طوطا رام بھی ایک مقبول کردار بن گیا اور پشتو ادب میں یادگار رہا،نہ ماننے والا کردار ملکوں کی دشمنی میں چل سکتا ہے سیاسی جماعتوں کی باہمی رقابت میں نہیں چل سکتا سیاست اور جمہوریت میں کوئی بات پتھرکی لکیر نہیں ہوتی یہاں ریاضی کے مسلمہ اصول بھی لچک دکھانے پرمجبور ہوتے ہیں انگریزی محاورے کی روسے دوجمع دو چار نہیں ہوتے کبھی تین بھی ہوتے ہیں کبھی پانج بھی ہوتے ہیں اس لئے سیاست اور جمہوریت میں کسی بات کوحرف آخر کادرجہ نہیں دیاجاتا،کوئی بات عمربھر کاروگ نہیں ہوتی،سیاست تووکالت کا دوسرا نام ہے وکلاء عدالت کے اندر ایک دوسرے کی مخالفت میں بولتے ہیں باہر آکردوست بن جاتے ہیں سیاست دان پارلیمنٹ کے اندر ایک دوسرے کے موقف سے اختلاف کا اظہار دلائل کی روشنی میں سنجیدہ اور شائستہ زبان میں کرتے ہیں ،پارلیمنٹ سے باہرآکر وہ یکجا بھی ہوتے ہیں یک زبان بھی ہوتے ہیں بقول’’کسے‘‘یہ جمہوریت اور سیاست کاحسن ہواکرتا ہے،صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک ہی درخت کی شاخیں کہلاتی ہیں ،گورنر اور وزیراعلیٰ درخت کی ایک ہی شاخ پرلگے ہوئے دوپھل ہیں ،نہ شاخوں کا آپس میں ٹکرانا جمہوری تقاضا ہے نہ دوپھلوں کا آپس میں ٹکرانا کوئی سیاست ہے،بچے بھی کھیل کود میں اس طرح کابرتاءو روا نہیں رکھتے،جمہوریت اورسیاست کی مثال دیتے ہوئے بڑے ممالک کانام لیاجاتا ہے تاہم پاکستانی سیاست اور جمہوریت کے پس منظر کوسامنے رکھ کرہم پڑوس کے چھوٹے ملک نیپال کی مثال دے سکتے ہیں ،تعلیم ،معیشت،غربت اور جہالت کے حساب سے نیپال بھی قوموں کی رینکنگ میں بہت پیچھے ہے ۔ مگر اس کا سیاسی کلچر پاکستان کے لئے ایک مثال ہے پُشپا کمال جو یہاں ان کا ایک لیڈر ہے جس کا معروف نام پراچندہ ہے،ان کی پارٹی بائیں بازو کی ماویسٹ پارٹی کہلاتی ہے،اس پارٹی نے1996سے2006تک چھاپہ مارجنگ لڑی ،10سال کی جدوجہد کے بعد حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پرآگئی اور جامع امن معاہدہکے ذریعے پارلیمانی سیاست میں داخل ہوگئی،پراچندہ دوبار ملک کے وزیراعظم بنے،ان کی پارٹی قومی دھارے کی بڑی پارلیمانی پارٹی بنی،وطن عزیز پاکستا ن میں جمہوریت اور سیاست کوذاتی دشمنی میں نہیں بدلنا چاہیئے،جن سیاسی جماعتوں کو ملک اورقوم سے ہمدردی ہے ان کوباہمی اخوت،محبت،یگانگی اور یک جہتی کے ساتھ مل کرملک اور قوم کی خدمت کرنی چاہیئے،پشاور کے وزیراعلیٰ ہاوس میں ہونے والا جرگہ اس یک جہتی کی جانب پہلا قدم ہے اب یہ قدم رکنا نہیں چاہیئے۔