Site icon Chitral Today

حوروں کا دلہا

سعادت حسین مخفی (لیکچرار اردو گورنمٹ ڈگری کالج چترال)

میری زندگی میں پورے چترال پر دو مرتبہ قیامت نازل ہوئی ہے پہلی بار 7 ۔ دسمبر 2016 ء بروز بدھ کی شام ۔جب چترال سے اسلام آباد جانے والاPIA کاطیارہ PK 661 مانسہرہ کے قریب حویلیاں کے مقام پر ہوائی حادثے کا شکار ہوا تھا ، جسمیں سوار عملے کے پانچ ارکان کے علاوہ 42 دوسرے مسافر شہید ہوئے جسکی وجہ سے سارے چترال کا ہر گھر ماتم کدہ بن گیا تھا۔

دوسری بار اس سے بھی بڑا حادثہ 20 اکتوبر 2018 ء بروز ہفتہ کی صبح 9 بجے رونما ہوا جو خالدبن ولی کے کار ایکسڈنٹ میں شہادت کی وجہ سے پورے چترال کے ہر گھر میں قیامت صغریٰ برپاہو گئی تھی۔

عصر کے پونے چار سے چار بجے کے مابین نگر باغ میں مجھے خبر ملتی ہے کہ خالد رحلت فرما گئے۔ اس وقت سماعت مشتبہ لگتی ہے میں فورا دروش اپنے گھر پہنچ جاتا ہوں۔ میری شریک حیات نمدیدہ و غمزدہ بیٹھی ہوئی ہے۔ بچے حیرت و استعجات سے اس کا منہ تک رہے ہیں ۔ میں کہتا ہوں، ایک بہت بڑی افسوس ناک خبر ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ معلوم ہوچکاہے پھر رونے لگتی ہے۔ بچوں کی موجودگی کے احساس کے باوجود میں خود بھی اپنےآنسوؤں پر قابو نہیں پاسکا۔بڑوں کی دیکھا دیکھی ‘حالات سے بالکل بے خبر معصوم بچے بھی رونے لگتے ہیں۔ان کو خاموش کرنے کیلے خود کو خاموش کرناپڑتا ہے ۔ لیکن یہ کوشش بہت مشکل ہے۔ بمشکل آنسوؤں پر قابو پاکر بچوں کو کھانا دیاجاتا ہے،خود کھایا نہیں جاتا۔بچے بھی نہیں کھارہے ہیں ۔ بچوں کیلے مجبوراً چند نوالے آنسوں سے تر کرکےحلق سے اتاراجاتا ہے ۔پھر بچوں کو سلایا جاتا ہے، خود لیٹ کر کروٹیں لیا جاتا ہے۔ 

چترال کے تقریبا تمام گھروں میں یہی کیفیت ہے کہ بچے بھوکے اور نمدیدہ سوجاتے ہیں ۔بڑوں کی أہ ذدہ کروٹوں میں آذان فجر سنائی دیتی ہے۔ نمازِ فجر کا سلام پھیرنے کے بعد دستِ دُعا دراز ہوتے ہیں تو صرف خالد کی بلندی درجات اور اس کے غم گزیدہ باپ کےلئے صبرواستقامت اور استحکام و استقلال کی تمنا دعابن کے لب پہ آتی ہے 

دوسری صبح سویرے ہر کسی کو چترال پہنچے کی جلدی ہے ،ہر ایک کو خالد کے جنازے میں جانا ہے ،خواہ کسی نے اسے زندگی میں ایک بار دیکھا ہو یا کبھی نہ دیکھا ہولیکن سب کو اس کے نماز جنازے میں پہنچنا ہے ۔ مشکل سے گاڑی میں جگہ ملتی ہے ۔ گاڑی کے اندر محتلف زبانوں پر محتلف جملے ہیں ۔ ” خالد اچھا تھا” “بہت اچھا تھا” “سب سے اچھا تھا ” “ہاں سنا ہے سب سے اچھا تھا ” “یااللہ اس کی مغفرت فرما ” “اس کے باپ کو استقلال عطا کر” یا اللہ وکیل صاحب کا کیا ہوگا ؟ وہ غم سہ نہیں پائیگا “۔ “نہیں نہیں !وہ دین دار اور متوکل انسان ہے ، وہ یہ غم برداشت کریگا ” “پھر بھی وہ گوشت پوست کا انسان ہی تو ہے ” “وکیل صاحب بڑا مدّبر ،صابر ،باہمت و باحوصلہ بندہ ہے ” ” اللہ اسے صبر جمیل دے “امین” ٖصرف یہی جملے سنتے ہوئے چترال پہنچا جاتا ہے

آج 21 اکتوبر کی صبح ہے۔ سارئے چترال میں ہر طرف گھپ اندھیرا ہے ،ہر طرف غم واندوہ کے بادل چھائے ہوئے ہیں ،ہر انسان کے دل پر غم کا بوجھ ہے ، ہر أنکھ اشکوں کی روانی پر قابو پانے سے قاصر ہے، یوں لگتا ہے کہ ہر گھر کی ماں کا جگر گوشہ چھن گیا ہے ،ہر گھر کی بہن کا لخت جگر چھوٹ گیا ہے ‘ہر بھائی اور ہر باپ کا دل صد پارہ ہو گیا ہے ، ہر ایک مکان ماتم کدہ ہے اور ہر گھر کا مکین ماتم کناں ہے ۔ آج ہر گھر کا کھانا بےلذت اور ہر مشروب بے چاشنی ہے ، ہر نفس لرزہ براندام ہے ۔ہر أنکھ آشک بار ہے ،لب ہل رہے ہیں لیکن زبانیں خاموش ہیں ،أرزویئں دم توڑ رہی ہیں۔، روحوں میں کہرام اور آنکھوں میں سناّٹا ہے، دل دھڑک رہے ہیں ،آنسو لڑھک رہے ہیں، آنکھیں چھلک رہی ہیں، موتی ڈھلک رہے ہیں۔ ایک منظر عجیب ہے ۔کیونکہ ! 

آج وہی خالد بچھڑ رہا ہے،جسے ہر کوئی اپنا اور صرف اپنا بیٹا ،اپنا بھائی، اپنا بھتیجا،اپنا ہمدم اوراپنا محبوب اور دوست سمجھتا تھا ۔وہ خالد جو عکس ِشرافت تھا ،جو پیکر ِوفا تھا ، پاک دامن و پاکباز تھا ،جو باکردار و نیک سیرت تھا ، جو خوبصورت و معصوم صفت تھا۔جس کی ہرادا سے عفت و پاکبازی ‘خاکساری و انکساری ،معصومیت و بال پن ‘ اور شرافت و بھلمنسائی ٹپکتی تھی ۔جس کی جبینِ پُر متین پرشکن دیکھنے کا دعوی کوئی بھی نہیں کرسکتا، جسے کبھی بھی کھلتے ہوئے ہونٹوں اور چمکتے ہوئے دانتوں کے بغیر فرد واحد سے بھی ملنے کی گواہی کوئی بھی نہیں دے سکتا ۔ 

وہ پیکر عفت تھا ،وہ عثمان (ذُولنّورین ِ) کی حیاکا امین تھا،وہ موحّد تھا،وہ مقّلدِاصحاب ؓحبیبؐ تھا،وہ پاک دامن و پاکباز تھا،وہ ایک ایسے محکمے کا آسامی نشین افسر تھا،جس میں دامن بچا کر چلنا سوائےفرشتوں کےکسی خاکی کاکوئی مقدور نہیں، اس نے مذکورہ محکمے کے پُل صراط میں بھی اللہ کی رسّی کو مضبوطی کیساتھ تھامے رکھا ۔ اس نے حرمت پر حِّلت کو ترجیح دی اور اسی تذکیہ نفس میں حلاوت کا مزا پایا ۔

ہاں وہی خالد! آج شہادت کا اعلی مقام پاچکا ہے اور وہی خالد آج شہادت کے آب صفا میں غوطہ زن ہے۔خود خصول ِقرب ِالہی کے لئیے پرتول رہاہے لیکن پیچھے رہنے والوں کو ایسا داغ ِمفارقت دے رہاہے کہ ” بھلائے نہ بنے ” اس کا عظیم باپ ، اس کا ہمدم ِدیرینہ،اس کا محبوب،اس کاہمراز ،اس کا بدر ِبراہیم صفت ،اس کا،کامل مسلمان اور اس کا موحّد ومتوکل ّباپ ، آھ۰۰۰ آھ ۰۰۰آھ !

رات بھر کرب وآلام ، نس نس میں ٹھیس اور درد سجائے، دودِآہ اور نالہ شب میں صبح کی آذان کا انتطار کررہا ہے ‘ صدائے بانگِ فجر سماعت سے ٹکراتی ہے ‘ “اللہ اکبر اللہ اکبر ” لاَاِلٰہ اِلااللہ ” ۔ وہ ادائے فرض کیلئے حسبِ معمول مسجد پہنچتا ہے ، سنجیدگی و متانت کے ساتھ فرض ِالٰہی ادا کرتا ہے۔ادائیگی فرض سے فراغت پاکر جبین نیاز سجدے میں رکھتا ہے اور دود ِجگر کے ساتھ آنسوؤں کی لڑی میں سجدہ شکر ادا کرتا ہے ” اے میرے مولٰا ! ، اے میرے رب ! اے کُن فیکون کے مالک پاک ذات ! اے میرے بااختیار اور یکاّ و تنہا خدا ! اے میرے عظمتوں اور برکتوں والے پروردگار ! ” تو نے اپنی جوامانت مجھے سوپنی تھی ‘ میں نے اپنی تمام تربشری کمزرویوں کے باوجود اس کی رکھوالی کی کوشش کی ، میں نے اسے خُلقِ عظیم کا درس دیا جو تیرے محبوب کے نام تیراعظیم خطاب ہے ، میں نے آپ کی امانت کو خاکساری و ملنساری کا سبق پڑھایا، تکبّر و غرور سے اسے نا آشنا رکھا ، صوم صلٰوۃ کا پابند بنادیا، آقا ئے نامدار ؐکی تقلید سّکھائی اور رضائے الہٰی کو”انسانیت کامعراج اور انسانیت کا اصل منبع و محور بناکر اس کے سامنے سجاد دیا ، میں نے تمہاری امانت کو جنّت کی حوروں کا عکس دکھایا تاکہ وہ دنیا کے بے نور و بےلذّت حسن کے دھوکے میں نہ آئے ، میں نے اسے خاکساری کے آغوش میں خودی و خود داری کے رموز سکھائے تاکہ وہ ضبط ِنفس ،ریاضتِ الہٰی اور نیابت ِالہی کی منزلین طےء کر کے ” ہاتھ ہے اللہ کا بندہ ءمومن کا ہاتھ ” بن جائے اور تُو خود اس سے پوچھ لے کہ” بتا تیری رضا کیا ہے ؟

اے میرے رب ! میں نےتیری امانت کو حبیب ؐکبریا کا مقلّد بنانے کی کوشش کی ۔ دنیاوی مغلّظات سے محفوظ رکھنے کی سعیِ پیہم کی اور تیری رضا کے حصول کے لئے جہدِ مسلسل کرتے ہوؑئے ،آج تمہاری امانت کو مکمل پاک دامنی کساتھ تجھے واپس لوٹا تا ہوں ۔ اے میرے مولا ! میں تمہاری امانت کو اس آرزو کے ساتھ تمہارے مبارک قدموں میں ڈالتا ہوں کہ مجھ سے اور اپنی امانت سے مکمل طور پر راضی ہو ، امین “

حوروں کے دولھا کو سجاکر پولوگراونڈ کو طرف لایا جارہا ہے، چاروں طرف انسانی سروں کے سمندر کے علاوہ کوئی چیز بصارت سے نہیں ٹکراتی ۔ چوگان بازی کے دونوں جولانگاہوں میں سوئی رکھنے کی جگہ بھی نہیں ، شاہ راہ چترال میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ،وسعت ِزمین تنگ پڑتی ہے لوگ گاڑیوں کی چھتوں پر چڑھ کر نماز جنازہ ادا کر رہے ہیں ،ہر کسی کی آرزو ہے کہ میری پُر خلوص دعائے ثواب ایصال خالد ہو ،ہر زبان پریہی کلمات جاری ہیں ، یا اللہ تو خالد سے راضی ہو ‘ یااللہ تو اسکی مغفرت فرما ‘ یا اللہ خالد کے درجات بلند فرما ‘ یااللہ اس کے تمام لواحقین خصوصًا اس کے باپ کوصبر ایوب کی دولت عطا کر حوروں کے دولہے کی بارات واپس دنین کی طرف روانہ ہو جاتی ہے ، لوگ ششدر کہ فطرت کا تقاضا تھا کہ لوگ دلہن کو دولہے کے ساتھ رخصت کرتے لیکن آج دولہے کو رخصت کیا جارہا ہے ۔دولہے کو دنین پنچہایا جاتا ہے ، اسے اسکی حویلی کے اندر آغوش مِادر کی مہک میں لیٹا یا جاتا ہے ، لیکن کسی کا دل نہیں چاہتا کہ پُر خمار نیند کےآغوش میں سوئی ہوئی اس معصوم صورت کو چادر ِخاک سے چھپایا جائے ،اور یہ خوب صورت فرشتہ صفت معصوم چہرہ آنکھوں سے اوجھل ہوجائے ! پھر یہ سوچ کر !۰۰۰۰۰۰ کہ کہیں نکہت ِآغوشِ مادری اور اس کے قدموں تلے خُلد برین کی مہک کے ساتھ، اس جہانِ بدبود دار کی بُو شامل ہو کر اس کی قوت ِشامہ میں مخل نہ ہو ،کہیں غُلغلہ ہائے مرغانِ اِرم کے ساتھ اس دھرتی کی صدائے واہیات و خرافات کی آمیزش شہید کی قوت سامعہ کے ساتھ نہ ٹکرائے ، کہیں حوروں کے حسن، ان کی پاکیزگی اور رعنائی و لربائی میں ، اس ارضِ بےنور وبےکیف کی عارضی مہک مغفور و مرحوم کی قوت ِباصرہ کے آگے حایل نہ ہونے پائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ! اسی سوچ کی بنا پرلحد کے اوپر منوں مٹی ڈالی جاتی ہے، تاکہ اس عارضی غم کدے کا تھکا ہوا مسافر آرام و سکون کی نیندوں کا لطف اُٹھائےاورجونہی آنکھ کھلے تو اپنے سرہانے حوروں کو منتظر پائے ‘ 

اللہ کے محبوب مہمان اس طرح ہی رخصت ہوا کرتے ہیں ۔

راہی ِ جنّت کو آغوشِ مادر اور متظر حوروں کی معّیت میں اکیلا چھوڑ کر لوگ ولی ہاوس کے سبزہ زار کی طرف واپس لوٹتے ہیں ۔

سوال؟ ۰۰۰! آخر خالد میں ایسی کونسی بات تھی جو اپنے تمام تر خصائل حمیدہ کے ساتھ سب کا محبوب بن گیا ؟اس نے آخر یہ سارے اوصاف حمید اپنی ذات میں کسطرح سمولیئے ،؟کیوں اسکی جدائی کسی سے بھی سہی نہ جاسکی؟ ،اور کیوں اس کی یاد آج بھی 2018 کی اسی شام کی طرح ستاتی ہے؟کیا اس نے یہ خصائل کسی مکتب و درس گاہ سے حاصل کی تھی ؟ کیا یہ اوصاف محفلِ یاراں سے مستعار کیا تھا ؟ یا کوئی اور وجہ تھی ؟۔ یہ تمام سہولیات توسب کو میسّر ہیں لیکن ہر کوئی خالد کیوں نہیں بن سکتا ؟یہ فیضان ِنظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی 

سکھائے کس نے اسماعیؐل کو آداب ِفرزندی ( اقبال ) 

میرے خیال میں اس گل کی آبیاری ،نگہداشت ، نگرانی اور نشونما میں اس مالی کا کردار زیادہ عیاں ہے، جسے ہم ایڈوکیٹ” عبدالولی خان عابد “کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان دعاؤں کا بھی اثر ہے ،جس کے قدموں تلے موصوف کے بچوں کی جنّت ہے ۔شنید ہے کہ عابد صاحب کی شریک حِیات مرحومہ و مغفورہ نہایت پاک دامن ،خوش خصلت’ خوب طینت ،نیک اطوار وخوب سیرت ،بالکل سیدھی سادھی اور صوم و صلٰوۃ کی پابند خاتوں تھیں ،اس کا محور ِعشق ولی کی ذات کے گرد گھومتا تھا، اس کی چار دیواری اسکا پورا کہکشان تھی، اس کی تمام تر سوچین ، دعائیں اور نیک تمنایئں اس کہکشان کے اندر کے آفتاب اور اس کے گرد گھومنے والے سیاروں تک محدود تھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نیک اختر اور نیک نیت خاتون اور اس کے موحّد و مقلّد اور مونسِ وغم خوار ” خدائے مجازی “کے توسط سے تولّد ہونے والی جملہ اولاد بعینہ خالد کے خصایل حمیدہ کے مالک ہیں ۔ہم طارق بن ولی اور فہام بن ولی کو بھی خالد کا ہی درجہ دیتے ہیں ۔اللہ اُن کو سلامت رکھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ لھذا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یقیناؐاس گلش کی نشونما میں مالی کا بھی کمال ہے ،یہ” مالی “اس گلش کے مالک کوبھی خوب پہچانتا ہے ۔ وہ گلش کی رکھوالی کا بھی ماہر ہے ،جو بادِسموم دبادِصرصر کا رُح بھی جانتا ہے، اور بادِ صبا وبادِ نسیم کے جھونکوں کے راستوں سے بھی واقف ہے، جو گلستان کے جملہ پھولوں کی آفزائش کیلئے بادِ مخالف اور بادِ مناسب کا ادراک بھی رکھتا ہے ،جو خود بھی رضاؑئے الہٰی کو محور بناکر راضی بہ راضائے الہٰی رہتا ہے ،جو خود بھی پاک طینت و باکردار ہے ،جو خود بھی پیکرِ اخلاص و وفا ہے، جو خود بھی دردِ انسانیت سہہ نہیں سکتا ،جو محبت کی دولت دیکر عقیدت کی عزت خریدتا ہے ،جو خود بھی شریک حیات کی ناگہانی شہادت کے زخموں کے اندمال سے قبل فرزند ِٖاعلی صفت کی شہادت ناگہانی وطوفانی کو حکمتِ آسمانی سمجھ کر ان زخموں کے ہار کو بھی خندہ جبینی کے ساتھ زیبِ گلو کر لیتا ہے ۔۔ یقینا ایسے عظیم باپ کا عکس اس کی اولاد میں منتقل اور منعکس ہونا ایک امرِ مسلّمہ ہے ‘

فرزند ارجمند کو رخصت کرنے کے بعد اپنےسبزہ زار میں آکر بیٹھ جاتا ہے، اس کے اندر کہرام ہے ، درون ِخانہء دل ‘ طوفان ِغم موجزن ہے ،اندر قیامتِ صغریٰ بپاہے ، پھر بھی یہ مرد ِمومن ، مردِ آہن صبرو استقلال کا پہاڑ ، ہّمت واستحکام کا آہنی ستون ،راضی بہ رضائے الٰہی کا اصل حقدار ٹھہرتا ہے ۔ تغزّیت کیلئے ہر آنے والے کا خود استقبال کرتا ہے۔ آبِ پُرتا ب کے فوارے بہہ رہے ہیں ، لب ہل رہے ہیں ،بہت کچھ کہنا چار رہا ہے لیکن کچھ کہ نہیں پاتا ۔ ہر آنے والا زارو قطار رورہا ہے ۔پیکر ہّمت انہیں دلاسہ دے رہا ہے اور ہر ایک کیلئے زبانِ حال صرف ایک جملہ ادا کررہی ہے کہ صبر کرو ، کہیں اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہو جائے ۔ کیونکہ اُسے یقین ہے کہ اس نے پوری ایمانداری اور بھر پور امانت داری کے ساتھ اس کی امانت واپّس اسی کو سوبپ دیا ہے ،واپس لینے والا مکمل راضی ہو چکا ہے، امانت کی مغفرت ہو چکی ہے ،صرف درجات کی بلندی کی دعائیں درکار ہیں۔ 

ایسے باپ اور ایسی اولاد پر ہزاروں سلام ۔ ان پر اللہ تعالی کی رحمتوں کا بارشوں کی طرح نزول ہو ۔

میں بجا طور پر اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ اس خاندان کے حلقہ ء رفاقت میں شامل ہوں اور دست بہ دعاہوں ، کہ کلُ کانئات کے کلی مختار و مالک ذات! اس خاندان کے سارے غمون کو خوشی میں بدل دے اے رب کعبہ و کانئات! اپنا دست ِمبارک اپنا دستِ کرم اور اپنا دستِ شفاء ان کے زخموں پر رکھ دے تاکہ ان کے سارے زخم بہ یک اشارہ ء”کنُ”مندمل ہو جائیں ۔ اےرب محمدؐ ! اس خاندان کو نسل درنسل تا روز ِقیامت اپنے حفظ و امان میں رکھ ،ان کا دامن خوشیوں سے بھردے ، سکوں کی دولت سے انہیں مالامال فرما ۔اِن کو اسی طرح اپنا فرمابردار ہی رکھ اور ان سے مکمل طورپر راضی ہو ۔ آمین 

Exit mobile version