محمد الیاس احمد
گولدور، چترال
نئی تہذیب کے ساتھ ایک نئی ترکیب بھی چل نکلی ہے۔ بیٹی کی جب شادی کرائی جاتی ہے تو بہت سے والدین حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ ان کی بیٹی کسی کے گھر جاکر ذمہ داریوں اورخدمت کرنے سے بچی رہے۔ اس فکر پر کاربند ہوتے ہوئے اکثر لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی کرانے کے بعد ان کو اپنے گھر میں ہی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور بیٹیاں بھی بڑی خوش
رہتی ہیں کیونکہ شوہروں کے گھر میں مختلف ذمہ داریاں ہو سکتی ہیں جن سے وہ بچ جاتی ہیں۔
پچھلے ادوار میں بھی محدود طور پر ایسے لوگ ہوتے تھے لیکن اب یہ طریقہ عام ہوتا جا رہا ہے تو اس کا نتیجہ بھی یہ نکلتا ہے کہ یہ لوگ اپنی بیٹیوں کو ارام تو پہنچا دیتے ہیں لیکن ان کا گھر اباد ہونے نہیں دیتے اور خود ہی ان بیٹیوں کا گھر برباد کر دیتے ہیں۔
بعض تو اس حد تک بیٹی کا خیال رکھتے ہیں کہ اس کے بچوں کو بھی پالتے ہیں۔ یوں یہ بیٹی اپنے شوہر کے گھر سے منقطع رہتی ہے۔ اس کے تین قسم کے ممکنہ خراب نتیجے نکلتے ہیں۔
1ـاگر شوہر کمزور اور بے غیرت ہو تو وہ چپ چاپ اپنی بیوی کو میکے میں رہنے دیتا ہے بلکہ خود بھی وہاں جا کے ہوٹل کی طرح بسیرا کر کے آتا جاتا رہتا ہے اور اپنا گھر آباد نہیں کرپاتا جبکہ اسکی بیگم دوسروں پر بوجھ بن کر ذلت کی زندگی گذار رہی ہوتی ہے ۔
2ـ اگر شوہر اس عمل کو برا محسوس کرتا ہو تو یا تو وہ ایسی بیوی کے ہوتے بے راہ روی اختیار کرتا ہے یا اور مناسب جگہ شادی کر لیتا ہے۔
3ـ شوہر تنگ آجائے تو ایسی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے یا اسکی بیوی اسکے گھر کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا رہنے کیلئے مختلف حیلے بہانے گڑھ کر خود طلاق مانگ لیتی ہے اور یوں اپنی بیٹی کا گھر اسکے والدین خود ہی برباد کر دیتے ہیں۔
کئی دفعہ ہم ایسی شادیوں میں شامل ہوئے جنکے بعد ہم نے لڑکے کے گھر اسکی بیوی رہتے نہیں دیکھی۔ علامتی رخصتی کے بعد لڑکی کو باپ کے گھر پڑے دیکھا ہے، یہ کیسی تہذیب چل نکلی ہے۔
بہانے مختلف ہوتے ہیں ۔۔۔ بیٹی نوکری کر رہی ہے تو شوہر کا خیال نہیں رکھ پاتی، ماں باپ کی یاد ستاتی ہے، شوہر سخت مزاج ہے، ساس حکم دیتی ہے وغیرہ وغیرہ، بلکہ بعض مقامات پر ساس بے ادبی تک کرتی نظر آتی ہے۔

