Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

!کتابوں سے کیا فائدہ

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

دا د بیداد

 

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

یہ تو طے ہے اور مسلمہ حقیقت ہے کہ کتابوں کا سب سے بڑا فائدہ علم ہے۔ پاکستان سے باہر لکھنے والے کو رائلٹی ملتی ہے اور کتا بوں کو چھاپنے والے اشاعتی ادارے ما لی فائدہ بھی حا صل کرتے ہیں۔ اس فائدے کو کتب فروشوں، تھو ک اور پر چون سودا گروں میں بھی تقسیم کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں اس کا رواج نہیں ہے۔

خیبر پختونخوا کے دارا لحکومت پشاور کے اندرکتاب کے کاروبار میں جلا ل اباد، ہرات، قند ہار اور کابل کے برا بر بھی فائدہ نہیں اس لئے یہاں کے بڑے بڑے پبلشروں نے یا تو کتابیں چھاپنا بند کردیا ہے یا اپنا راستہ بدل کر افغانستان کی بڑھتی اور ابھرتی ہوئی منا فع بخش مارکیٹ کا رخ کیا ہوا ہے ظاہر ہے وہاں اردو، انگریزی، ہندکو ، سرائیکی یا کسی اور پاکستانی زبان کی کتاب نہیں بکتی وہاں پشتو اور فارسی کی کتابیں بکتی ہیں اس لئے پبلشروں نے پشتو کی ادبی، تاریخی اور سماجی علوم پر لکھی گئی نئی اور پرانی کتابوں کو چھاپنے کا سلسلہ زور شور سے شروع کیا ہے، فارسی میں تفسیر، حدیث، فقہ، منطق اور فنون کی کتابیں اسلامی مدارس کے لئے چھپوائی جاتی ہیں بعض قدیم کتب کے پشتو تراجم مارکیٹ میں لائے جاتے ہیں۔

پشتو ادب میں پٹہ خزا نہ سے لیکر کلیات ہمیش خلیل تک پرا نی اور نئی کتا بوں کی بڑی ما نگ ہے اور ندا مت کی بات یہ ہے کہ پا کستان اور پختونخوا سے زیا دہ کا بل اور ننگر ہار میں ان کتا بوں کی مانگ ہے 20فیصد ما رکیٹ اسلا می جمہوریہ پا کستا ن میں ہے تو 80فیصد مار کیٹ امارت اسلا می افغا نستان میں ہے پشاور کے اردو بازار محلہ جنگی میں ایک ہفتہ گذار نے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ علم دوست ملک کو نسا ہے اور کتاب دشمنی کس ملک میں زیا دہ ہے معروف اور مصروف پبلشر وں کا کہنا ہے کہ ہمارے پڑوس میں جو مما لک ہیں وہاں کے عوام میں علم دوستی کی قدیم روایات بہت پختہ ہیں وہاں کی حکومتوں نے کتا بوں کی تجا رت کے لئے ساز گار فضا قائم کی ہے جون 1985ء میں پا نچویں اہل قلم کانفر نس کی افتتا حی نشست میں صدر ضیاء الحق کے سامنے کلیدی خطبہ پیش کر تے ہوئے بزر گ شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی نے ایک واقعہ سنایا جو کا نفرنس کی روداد ادبی جا ئزے نامی کتاب میں شاءع ہو چکی ہے قاسمی صاحب نے لکھا ’’ایک بین لاقوامی سیمینار کے دوران پڑوسی ملک کے ادیبوں نے کتابوں کی اشاعت کا ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ وہاں ہر کتاب 20لاکھ کی تعداد میں چھپتی ہے۔ پھر ایک شاعر نے پاکستان میں کتابوں کی اشاعت کا حال پوچھا تو ہم نے ’’دروغ مصلحت انگیز‘ ‘سے کام لیتے ہوئے کہا کہ 20ہزار کی تعداد میں ہر کتاب چھپتی ہے تو وہ لوگ افسوس کرنے لگے۔

اگر میں سچ بولتے ہوئے ایک ہزار یا 500کہتا تو وہ باقاعدہ ادب کی موت پر فاتحہ پڑ ھتے اور تعزیت کا اظہار کرتے ملک اور قوم کی عزت و ناموس کا مسلہ تھا۔ ہم نے جھوٹ بول کرعزت بچائی مگر ہرجگہ جھوٹ نہیں بولا جاسکتا۔ وطن عزیز میں کتا بوں کی صنعت کو پڑوسی ممالک کے برابر لانے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا ‘‘ قاسمی صاحب کا دکھ آج بھی بجا ہے بلکہ آج کچھ زیا دہ ہی بجا ہے لاہور، کراچی اور اسلا م اباد میں شاعر اور ادیب اپنی کتاب خود چھپوا تا ہے اس پر اپنی جیب سے خر چ کرتا ہے ہر کتاب 100یا 200کی تعداد میں چھپتی ہے، لاہور میں پروین شاکر، فیض احمد فیض اور منیر نیازی کی کوئی کتاب اگر 850روپے میں آتی ہے تو پڑوسی ملک سے آنے والی وہی کتاب 250روپے کی ملتی ہے گویا وہاں کتاب آشنا معا شرے ہے اور یہاں ڈنڈہ آشنا سماج ہے لاہورکے مال روڈ پر دو چار دکانوں سے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ پڑو سیوں کے ہاں کا غذ سستا بھی ہے دستیاب بھی ہے ، کتا بوں کی صنعت ٹیکسوں سے مستثنیٰ ہے البتہ ہر پبلشر مصنف یا شاعر کو رائلٹی دینے کا پا بند ہے ، وہاں انٹیلکچو یل پرا پر ٹی راءٹ یعنی ’’تخلیقی ذہا نت کے حق‘‘ کو تسلیم کیا گیا ہے اگر ما ر کیٹ کا یہی حال رہا تو اگلے چند سالوں میں پشاور کے اشا عتی ادارے صرف افغانستان کے لئے کتابیں شاءع کرینگے۔

پبلشروں نے ابھی سے کہنا شروع کیا ہے ’’کتابوں سے کیا فائدہ‘‘ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ 20سالوں میں 8بڑے اشاعتی اداروں نے پشاور سے بوریا بستر اٹھا لیا اور 50بڑے بک سٹور بند ہو چکے ہیں گذشتہ سال کی یہ خبر بڑی جا نکا ہ تھی کہ لندن بک ڈپو بھی بند ہوگیا اس ماہ ہم نے پشاور صدر کی لیاقت سٹریٹ سے گذر تے ہوئے دیکھا جہا ں کتابوں کی دکا نیں تھیں وہاں بچوں کے کھلو نے بک رہے ہیں۔ ہم نے بلور پلا زہ کے تہہ خا نے میں سردار جی کی مشہور دکان اور چار مقامات پر مقبول کتب میلوں کی جگہوں پر جا کر دیکھا سب بند ہو چکے ہیں یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکر یہ ہے شاعر کا مصرعہ اس پر صادق آتا ہے وہ جو بیچتے تھے دوائے دل دکان اپنی بڑھا گئے۔ 

You might also like
2 Comments
  1. Anonymous says

    Some days ago, dropped by the University Book Agency and asked the owner about the absence of compterory Urdu poetry books from his shelves. He said that due to lack of interest, they have stopped purchasing poetry books. “Do you know how many customers are inside the shop now,” he asked, and i looked across the shop and there are at least 10 people inside at that time. “Besides you, only one of those present inside the shop is a customer and the rest are staff,” he said,

  2. Anonymous says

    One reason for this might be availability of books online. Of course, after coming of internet, book reading habit has dwindled everywhere.

Leave a comment

error: Content is protected!!