Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

فلسفی اور قانون دان

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
عصمت عیسیٰ ایڈوکیٹ کی وفات سے ہمار صوبہ ایک عالم، فلسفی اور قانون دان سے محروم ہوگیا مرحوم کو عربی، انگریزی اور فارسی پر عبور حاصل تھا۔ وہ مشہور حریت پسند رہنما انیسویں صدی کے چھاپہ مار جنگجو اور شمشیر زن محمد عیسیٰ کے پڑ پوتے تھے ضلع چترال بالا کے تاریخی گاوں اجنو کے بائیکے قبیلے میں استاذ الاساتذہ مصطفیٰ کمال کے گھر 1950ء میں پیدا ہوئے اسلا میہ کالج پشاور سے گریجویشن کے بعد خیبر لاء کالج پشاور یونیور سٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری لی۔ سرکاری مقدمات کی پیروی کرنے والے پرا سیکیو شن برانج میں ملازمت اختیار کی اور پبلک پراسیکیوٹر کی حیثیت سے ریٹائر منٹ لے لی۔

انشا اللہ خان انشاء کے سوانح نگار نے لکھا ہے کہ ان کی نثر نگاری کو شاعری نے سر اٹھانے نہیں دیا اور ان کی شاعری کو نواب سعادت حسین خان کے در بار نے نگل لیا، یوں ان کا علم و فضل اشکار نہ ہو سکا۔ عصمت عیسیٰ کے ساتھ بھی ایسا ہی سانحہ ہوا۔ سرکاری دفتر کے مقدمات کی بھول بھلیاں، فوجداری عدالتوں میں پے درپے پیشیاں اور مکھی پر مکھی مارنے کی دفتری روایت نے انہیں سراٹھا نے نہیں دیا۔ جب بھی ملتے کسی اہم کتاب کے مطالعے کا حال بتاتے اور کہتے ریٹائرمنٹ کے بعد چار موضوعات پر لکھوں گا اور جم کر لکھوں گا۔ ابن تیمیہ اور مولانا مودودی کے افکار کا موازنہ ان کا پسندیدہ مو ضوع تھا اسلامی فقہ میں شہادت اور جرح و تعدیل کے ضوابط ان کا دوسرا موضوع تھا۔

انگریزوں کی غلامی کے سماجی اور سیاسی اثرات پر وہ کام کر رہے تھے۔ اسی طرح فتاوائے عالمگیری کی روشنی میں دور حاضر کے معاشرتی مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں ان کی عرق ریزی بے مثال تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف بیماریوں نے ان کے گھر کا راستہ ڈھونڈ لیا۔ بیماریوں کو دور کرنے کے لئے انہوں نے قانون کی باقاعدہ پریکٹس شروع کی تو مقدمات کی اتنی بھر مار ہوئی کہ سرکاری ملازمت سے زیادہ مصروف رہے۔ قلم کاغذ، کمپیوٹر اورلائبریری سے رشتہ جوڑنے والے تھے کہ داعی اجل کا پیغام آیا۔

نظیر اکبرابادی نے کہا تھا ’’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لادچلے گا بنجارہ‘‘۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے میں نے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا بڑے۔ لوگوں کے ساتھ ایسا ہی المیہ ہوتا ہے ان کے ساتھ میری پہلی ملا قات 1969ء میں ہوئی تھی جب میں اینگلوور نیکلر ہائی سکول چترال میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ہمارے سکول کے تین کمروں میں انٹرمیڈیٹ کالج قائم ہوا تو عصمت عیسیٰ فرسٹ میں داخل ہوئے۔ سیداحمد خان ان کے بڑے بھائی تھے تاہم سکول اور کالج میں دونوں ہم جماعت تھے۔ عصمت عیسیٰ ہم نصا بی سر گرمیوں اور تقریری مقا بلوں میں نما یاں مقام رکھتے تھے۔ اسلا میہ کا لج گئے تو اسلا می جمعیتہ طلبہ کے سر گرم کار کن بنے ہم نے انہیں پر جو ش نعرے لگا تے ہوئے سنا جو کام بھی کر تے پورے جو ش و خروش کے ساتھ دل لگا کر انجام دیتے تھے اور یہ وصف ان کے پڑ دادا محمد عیسیٰ سے وراثت میں ملا تھا محمد عیسیٰ کا نام شجاعت اور بہادری میں ضرب المثل کا درجہ رکھتا ہے۔

چترال اور غذر میں بہادر اور نڈر بچے کو شیر نہیں کہتے ’’محمد عیسیٰ‘‘ کہتے ہیں، کابل کے امیر شیرعلی خان کو قند ھار کی مہم پیش آئی تو محمد عیسیٰ کو اپنے لشکر کے قلب میں رکھا میمنہ کے میدان میں انہوں نے بہادری کے جوہر دکھا ئے ان کا بڑا کمال یہ تھا کہ وہ تلوار چلا تے تو ان کی آنکھ نہ جھپکتی یہ خصوصیت بڑے بڑے سورماوں میں ہوا کرتی تھی 1895ء میں چترال انگریزوں کی کالونی میں شامل ہوا تو ان کے ساتھی جنگجو گرفتار ہوئے، محمد عیسیٰ نے جلا وطنی اختیار کی دیامر میں بقیہ زندگی آزاد سانس لیتے ہوئے گذاری اور وہیں مدفون ہوئے عصمت عیسیٰ مرحوم غیرت اور خوداری کے پیکر تھے۔

مولانا شبلی نعمانی اور علا مہ اقبال کے ہاں خودی کے جو تصورات ہیں۔ ان تصورات کو عزیز رکھتے تھے وہ کہا کر تے تھے کہ علا مہ اقبال کا شاہین میرے پڑ دادا کے کر دار کی عکا سی کرتا ہے علا مہ اقبال کا شعر اکثر دہرا تے ’’غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں، پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا‘‘۔ رمضا ن المبارک کے آخری عشرے میں مرض الموت کا حملہ ہوا۔ ساڑھے تین ماہ صاحب فراش رہنے کے بعد 19جولائی 2024ء کو 74سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ بیماری کے دوران جب بھی مجتبیٰ کمال اور صلاح الدین سے بات ہوئی ان کی قوت ارا دی کا تذکرہ ہوا۔ ان کی موت نے ایک علمی شخصیت کو ہم سے چھین لیا۔ اللہ پاک ان کی روح پُر فتوح کو جنت کی آسائشیں اور راحتیں نصیب کرے (آ مین)

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!