منامہ مذاکرات کا ایجنڈا
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
اگلے ہفتے بحرین کے دارالحکومت منامہ کے پُرفضا مقام پرعالمی امن اور انسانی بہبود کے عنوان سے مذاکرات ہورہے ہیں جو تین دنوں تک جاری رہینگے۔ مذاکرات میں دنیا بھر سے خفیہ ایجنسیوں کے حکام اور قومی ریاستوں کے افیسروں کو مدعو کیا گیا ہے۔ پاکستان، بھارت اور افغانستان سے بھی ’’حکام بالا‘‘ کے وفود مذاکرات میں شرکت کرینگے پا کستانی دفتر خارجہ نے مذا کرات کے لئے اپنا ہوم ورک مکمل کیا ہے۔
منامہ مذاکرات پہلے افیسروں کی سطح پر ہونگے اس کے بعد سربرا ہوں کی سطح پر مذا کرات اور معاہدوں پر دستحط ہونگے ان مذا کرات کے لئے 2024کے سال کا انتخاب بھی معنی رکھتا ہے۔ سفارتی زبان میں ایسے واقعات علامتی اہمیت بھی رکھتے ہیں اس سال برطانیہ میں انتخا بات ہو چکے ہیں اور انتخابات کے نتیجے میں کنزر ویٹیوپارٹی کے 14سالہ اقتدار کے بعد لیبر پارٹی بر سر اقتدار آچکی ہے۔ نومبر 2024ء میں امریکہ کے صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں انتخا بی مہم کا پہلا صدارتی مباحثہ ٹیلی ویژن پر دکھایا جاچکا ہے۔ دو ایسے مباحثے اور ہونگے جو امریکی رائے دہندگان کے لئے ترجیحات کا تعین کرینگے۔
تجزیہ نگاروں کا اندازہ ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں عالمی امور کے اندر امریکہ کی موجودہ پا لیسی یکسر بدل جائیگی اس حوالے سے منامہ مذاکرات کے لئے جو ایجنڈا رکھا گیا ہے وہ عالمی تنازعات کے حل اور ترقی میں سب کو شریک کر نے کا ایجنڈا ہے۔ اس وقت یورپ، ایشیا، جنو بی ایشیا، مشرقی وسطی اور افریقہ کے متعدد مما لک کو تنا زعات ، خا نہ جنگی، قحط یا بغا وت کا سامنا ہے، روس اور یو کرین کی جنگ جاری ہے، حماس اور اسرائیل کی جنگ نے کئی انسانی المیوں کو جنم دیا ہے۔ صومالیہ اور سوڈان کی خانہ جنگی سے دونوں ملکوں میں بڑی تباہی آگئی ہے۔ ایتھو پیا اور افغانستان سمیت کئی ممالک کو غذائی قلت اور قحط کی صورت حال کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے کئی مما لک پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں کویڈ 19کے بعد دنیا کے بیشتر مما لک میں خط غربت سے نیچے زندگی گذار نے والوں کی شرح بڑھ گئی ہے جن مما لک میں سیا سی اور معا شی استحکام نہیں وہاں سے بڑی تعداد میں آبادی دوسرے مما لک کی طرف نقل مکا نی کر رہی ہے۔
امریکہ اور یورپ کو تارکین وطن کے گھمبیر مسئلے کا سامنا ہے کلا ئمیٹ چینج، موسمیاتی تغیر یا عالمی حدت کی وجہ سے پانی کے ذخائر اور اونچے پہاڑوں پر محفوظ گلیشر بھی خطرے کی زد میں ہیں یہ ایسے مسائل ہیں جو پاکستان کے پیدا کردہ نہیں بلکہ صنعتی ممالک کی بے تحا شا ترقی سے پیدا ہونے والے گرین ہاوس گیسوں کا نتیجہ ہیں آج مٹی کا ربن کو ترستی ہے تو اس کی ذمہ داری صنعتی ممالک پر عائد ہو تی ہے کیوٹو پرو ٹوکول میں اس کا حل موجود تھا پروٹو کولز پر دستخط کرنے کے بعد صنعتی ممالک نے اس پر عملدر آمد سے انکار کیا 1997ء میں جاپان کے شہر کیوٹو میں صنعتی ممالک نے موسمیاتی تغیر کو روکنے کے لئے گرین ہاوس گیسوں کے اخراج پر پابندی اورتمام صنعتوں کو آلو دگی سے پاک توانائی پر منتقل کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ معاہدے میں عالمی حدت سے متاثر ہونے والے ممالک کی مدد کے لئے کار بن فنڈ قائم کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ اس وقت دنیا کے جو ممالک عالمی حدت سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں ان میں پاکستان کا نام سرفہرست ہے۔ افغانستان میں خانہ جنگی سے بھی پاکستان سب سے زیا دہ متاثر ہوا ہے، کشمیریوں کو حق خود اداریت دینے سے انکارکا مسئلہ بھی پا کستان سے براہ راست تعلق رکھتا ہے، غر بت، بے روز گاری اور غذائی قلت کے مسائل بھی پاکستان میں سب سے زیادہ ہیں، اس لئے پاکستانی وفد منامہ مذاکرات میں ان مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے بھر پور کردار ادا کرے گا۔