موسم ،ثقافت اور ادب
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
ڈاکٹر ناصر جمال خٹک کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کا کام صرف اعلیٰ تعلیم کا فروغ اور علم کو پھیلا نا ہی نہیں بلکہ علم کی تخلیق، علم کی ترویج اور علم پر مبنی ثقافت کی تشہیر بھی ہے اور یہ کام صرف تحقیق کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ اس لئے یونیورسٹیوں کو سوالات جنم دینے اور سوالات کا جواب ڈھونڈ نے والے کھوجی بھی کہا جاتا ہے۔
جولائی کا مہینہ آتے ہی جب شہروں اور میدانوں میں درجہ حرارت 44ڈگری سنٹی گریڈ سے اوپر کی خبر لارہا تھا خو شحال خان خٹک یو نیورسٹی کرک اور چترال یونیورسٹی نے شراکت دار تنظیموں اور اداروں کے تعاون سے پہاڑی علا قوں کے 30اور 34ڈگری سنٹی گریڈ کی خنکی میں جاکر موسم، ثقا فت اور ادب کے باہمی تعلق پر تحقیق و تعلیم اور سوال و جواب کا علمی میلہ لگایا۔ یہ ایسا میلہ ہے کہ خدا دے اور بندہ لے جس ہال میں ڈاکٹرعبد السلام خالص، ڈاکٹر نجیبہ عارف، ڈاکٹر ناصر جمال خٹک، ڈاکٹر نصیر الدین، ڈاکٹر خالد خان، ڈاکٹر ضیعم باری باری سٹیج کو رونق بخشتے ہوں۔ اس ہال کا حال قابل رشک تو ہوتا ہی ہے سوا یسا ہی ہوا عزیز اعجاز کا شعر زبان زد عام ہے جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہو تا ہے۔ موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے اس شعر کو عملی جامہ پہنتے دیکھا جارہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ مو سم اور ثقا فت کا کیا رشتہ ہے ضمنی سوال یہ ہے کہ اس رشتے کو ادب نے کس نگا ہ سے دیکھا اب ادب سے صرف انگریزی، اردو، عربی اور فارسی ادب مراد نہیں بلکہ پاکستانی ادب کی تمام شاخیں اور مقامی زبانوں کا پورا ذخیرہ مراد ہے چا ہے عوامی شاعری ہو، قصیدہ اور غزل ہو یا ناول اور داستان ہو عالمی ادب میں موسم کا حوالہ صرف تشبیہ اور استعارہ بن کر نہیں آیا بلکہ زند گی، سماج، معا شرت اور ثقافت کا آئینہ بن کر آیا صرف گذرے مو سموں کا دکھڑا بن کر نہیں آیا بلکہ آنے والے مو سموں کی پیش گو ئی بن کر بھی آیا
اس لئے شاعر کورحمن کا شاگرد کہا گیا ہے مو سم کے حوالے سے ادب میں ملٹن ، شیلے اور کیٹس کی روما نیت میں بھی ملتے ہیں مو لانا رومی، شیخ سعدی اور خوا جہ حا فظ کے ہاں بھی ملتے ہیں انیس اور دبیر کے ہاں محا کات کی جو کہکشاں ملتی ہے وہ لا جواب ہے ، خوشحا ل خان خٹک ، غنی خان ، نظیر اکبر آبادی ، اختر شیرانی ، فیض اور فراز کے ہاں بھی مو سم اور ثقا فت کا حوالہ ملتا ہے فیض کہتا ہے ہم اہل قفس تنہا بھی نہنہرروز نسیم صبح وطن یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے یا فراز گنگناتا ہے اب تم آئے ہو میری جاں تما شا کرنے اب دریا میں طلا طم نہ سکوں ہے یوں ہے تم نے دیکھی نہیں دشت وفا کی تصویر، نوک پر خار پہ قطرہ خون ہے یوں ہے
عالمی کلا سیکی شہہ پاروں میں داستان، ناول اور افسانہ بھی ما حول اور مو سم کی تصویر کشی کا ذریعہ ہے داستان میں بلا کے آنے سے پہلے آندھی آتی ہے با دل گر جتے ہیں بجلی کڑ کتی ہے یہ بلا وں کے مو سم کی پیش گو ئی ہے روا یتی ، عوامی اور لو ک شا عری میں ہر نی اور باز کے لئے جو گیت گائے جا تے ہیں ، چکور اور فاختہ کو جب تشبیہہ اور استعارہ میں لا یا جا تا ہے تو مو سم ، ما حول اور ثقا فت کا آئینہ دکھا تا ہے مو جو دہ دور کو مو سمیا تی تغیرسے کوئی واقف نہیں تھا اس وقت بھی شاعر اور ادیب موسمیا تی تغیرکا ذکر کے بغیر کسی بھی پیرا یہ اظہار میں بیان نہیں کیا جا سکتا مگر جب پوری دنیا میں مو سمیا تی تغیر سے کوئی تغیر کا ذکر شدو مد کے ساتھ کرتا تھا
موسم، ثقافت اور ادب کے عنوان پر چترال یونیورسٹی میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے لئے ڈاکٹر سید حنیف رسول اور ڈاکٹر کفایت اللہ بنوری نے دن رات محنت کی کانفرنس کے اندر دو دنوں کی متوا زی نشستوں میں 108مقا لے پڑھے گئے ملک بھر اور خیبر پختونخوا کی 40یو نیورسٹیوں کے محققین نے شر کت کی چترال یو نیورسٹی میں پڑھنے والے طلبا اور طا لبات کی دلچسپی نے کا نفرنس میں جاں پیدا کئے رکھی ، کانفرنس میں پڑھے گئے مقالات ، کلیدی خطبات اور مبا حثات کی رو داد کتا بی صورت میں شاءع ہوئی تو عالمی ادب میں بالعموم اور خا ص کر مقا می زبانوں کے ادبی ذخیرے میں مو سم ثقا فت اور ادب کے تنا ظر کا حسین مر قع ہاتھ آئے گا