محمد جناب شاہ (حصہ دوم)
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
چترال کی تاریخ و معاشرت میں ان کا تعلق ماجے (ماژے) قبیلہ کے معزز خاندان سے تھا۔ تاریخ میں ذکر ہے کہ ان کا جد امجد ماج وسطی ایشیا سے اپنی اولاد کے ساتھ نقل مکانی کرکے چترال آیا۔ پندر وھویں صدی میں اس قبیلے کے سر داروں نے جنگی مہمات میں بہادری کے جوہر دکھائے بعد کے ادوار میں بھی اس قبیلے کی عزت میں اضافہ ہوتا رہا مضمون شاہ، کمال شاہ اور سمردین نے مختلف جنگوں میں شمشیر زنی سے نام پیدا کیا۔ منشی محمد جی اور مرزا حبیب اللہ فارسی خط و کتابت کے ماہر تھے اور ریاستی دورمیں دفتری عہدوں پر فائز تھے۔ جن لوگوں نے آپ کو قریب سے دیکھا وہ آپ کی قابلیت سچائی، دیانت داری اور امانت داری کی کئی مثالیں دیتے ہیں۔
نوشہرہ میں چترال کے تاریخی گاوں اجنو تورکھو سے امیر شاہ آپ کے ہم مکتب تھے وہ فٹ بال کے مشہور کھلا ڑی تھے ویمژد موڑ کہو کے ولی الدین پشاور میں آپ کے ہم جماعت تھے۔ مگر دونوں کا کہناتھا کہ آپ کا شمار نمایاں لڑ کوں میں ہوتا تھا آپ نے لالہ رفیق اور لالہ ایوب جیسے بڑے کھلا ڑیوں کی ٹیم میں شامل ہوکر کابل میں افغانستان کی ہا کی ٹیم کے خلا ف میچ کھیلا جو اعزاز سے کم نہ تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج کے محکمہ رسد میں چترال کے تینوں نو جوانوں نے خد مات انجام دیں اس دوران انگریز افیسروں نے آپ کو تعلیم جا ری رکھنے کا مشورہ دیا ، آپ کے دونوں ساتھی 1945 میں محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوئے ولی الدین نے پشاور میں خد مات انجام دیں امیر شاہ نے چترال آکر ملا زمت اختیار کی نو شہرہ میں قیا م کے دوران آپ کے ننھیا لی رشتہ دار ولی محمد خان نے آپ کی سر پرستی کی گاوں سے بھی وہی آپ کو لیکر گئے تھے زند گی بھر ان کے احسان مند رہے بڑھا پے میں وہ گاوں آگئے تو بساط بھر ان کی مدد کر تے رہے اور سب کو بتا تے رہے کہ یہ میرا محسن ہے چترال کے مر کزی قصبے میں آپ کا رشتہ روشتے قبیلہ سے تعلق رکھنے والے محمد شریف خان کی صاحبزادی کیساتھ طے ہوا مقدر میں اولاد کی نعمت نہیں تھی تاہم عمر بھر وفا دار ی نبھا ئی ان کی وفات کے 26سال بعد بھی ان کی زوجہ محترمہ بقید حیات ہیں اور شیا قو ٹیک میں آپ کے مزار کے قریب زر خرید گھر میں آپ کے بھتیجوں کے ساتھ مقیم ہیں ملازمت کے مختلف ادوار میں اور ریٹائرمنٹ کے بعد جن لوگوں کو آپ کے قریب رہنے کا اتفاق ہوا وہ آپ کی زندگی اور معمولات کے بارے میں جا نتے تھے۔
ان میں اس دور کے اساتذہ کرام عبد المنان کوغذی، عبد القادر ژوغور، غلا م محمد استارو، حا کم خان چرن اویر، مولانا صاحب الزمان اویون، مولانا محمد مجید دینین، مولانا محمد سعید فاضل دیو بند ژوغور، شریف اللہ ورکوپ، میر کلان شاہ ہون اور ان کے بیٹے سردار حسین شاہ شامل تھے۔
اینگلو ور نیکلر سکول چترال کے اُس وقت کے طلباء آپ کے ساتھ اتنی محبت کر تے تھے جتنا بچہ اپنی ماں کے ساتھ پیار کر تا ہے حا جی شاہ عجم نے 1956ء میں میٹرک پا س کیا اور سکول میں اول آئے ان کا کہنا ہے استاد محترم کلا س روم میں بچوں کو ماں کا پیار دیتے تھے ’’سمجھ میں آئی‘‘ ان کا مشہور تکیہ کلا م تھا پیریڈ گراونڈ میں جسما نی ورزش کی کوئی بھی سر گرمی ہو۔
استاد محترم ہمارے ساتھ ہوتے تھے دوڑ میں کوئی لڑکا اس سے آگے نہیں نکل سکتا تھا ہاکی میں وہ بال لیکے آگے بڑھتے تو بجلی کی سی تیزی کیساتھ ڈی میں داخل ہوتے اور گول کر تے، ایک بار رسی پر چڑھنے کا مقابلہ ہوا۔ انہوں نے کچھ دیر تک دیکھا جب لڑکے 10فٹ سے اوپرنہ جا سکے تو آپ خود میدان میں اترے20فٹ رسے پر چڑھنے کے بعد چنار کی شاخ پر پاوں رکھ کر مزید اوپر گئے اور پھر تالیوں کی گونج میں رسی تک آگئے رسی پکڑ کر نیچے اترے۔ نادرعزیز قریشی مڈل سکول مستوج میں ان کے آخری معائنے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنی محنت کا حال بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں ریاضی کے ہر مشق میں ہر سوال کو 200بارحل کرتا تو مجھے یاد ہو جاتا تھا انہوں نے ہ میں بتایا کہ تم خوش قسمت ہو تمہارے گھر سے 6کلومیٹر یا 10کلومیٹر کے فاصلے پر مڈل سکول ہے ہمارے زمانے میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا تم آ گے بڑھوسوات، نوشہرہ، مردان اور پشاور کے لڑکوں سے مقابلہ کرو۔
اُن سے اچھے نمبر لیکر دکھاو اپنے بی ٹی کی ڈگری کا ذکر کرکے کہا کرتے تھے کہ تعلیمی نفسیات کا علم بی ٹی کے بغیرحاصل نہیں ہوسکتا، سکول میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ وہ انگریز افسروں کو مقامی لوگوں کی مادری زبان کھوار بھی پڑھاتے تھے انگریزوں کا امتحان لیکر پر وفنیسی سر ٹیفیکٹ دیتے تھے اس پر ان کو ماہانہ 10روپے اضافی الاونس ملتا تھا 1951ء تک سلسلہ جاری تھا ان کو افسوس تھا کہ اس کے بعد افیسروں نے کھوار سیکھنے میں دلچسپی نہیں لی کیونکہ تنخواہ کے علاوہ آمدنی کے دوسرے ذراءع ڈھونڈ لئے گئے 10روپے الاونس کی کوئی وقعت نہیں رہی، سکول کے لان میں ٹینس کھیلنے کے لئے پولیٹکل ایجنٹ بھی آتے تھے، آپ سفید وردی میں ان کے ساتھ ٹینس کھیلتے تو بڑا مزہ آتا۔ 1965ء میں آپ نے حج بیت اللہ کی سعادت حا صل کی واپسی پر علمائے کرام کو کار گذاری سنا تے ہوئے آپ نے کہا کہ حج کے سفر میں عر بی زبان پر عبور کا بڑا فائدہ ہوا البتہ میری عر بی کتا بی زبان تھی۔
حرمین شریفین میں قیام کے دوران بول چا ل میں روانی آگئی تھی آپ میرے ساتھ عربی بولیں تا کہ بول چال کی اس روانی میں فرق نہ آئے، آپ کو اپنے وطن ما لوف تیریچ اور اپنے ما جے قبیلہ سے بھی قلبی لگاءو تھا میر زا حبیب اللہ ، منشی محمد جی اور سمر دین کے کا رناموں کا ذکر کر تے تھے تاریخ چترال میں قبیلے کی دوشا خوں کا ذکر ہے ایک شاخ بر ق با شہ لکھا گیا ہے نو جوان قانون دان محب اللہ تریچوی نے بھی اس کی بجا طور پر تصدیق کی ہے آپ کو کچھ عرصہ قتیبہ پبلک سکول کے پرنسپل بننے پر راضی کیا گیا اس دوران بھی آپ نے دفتر سے زیا دہ وقت کلا س روم کو دیا سینئر کلا سوں کو انگریزی پڑھا تے رہے اُس دور کے ایک طا لب علم امتیاز احمد کہتے ہیں کہ بڑ ھا پے میں بھی جوانوں کی سی لگن اور شوق کے ساتھ پڑھا تے تھے آپ کے بھتیجے امیر نواب شاہ کا کہنا ہے کہ آخر عمر میں درس قرآن دیا کر تے تھے اور قرآن کی مختلف تفاسیر کے مطا لعے میں مگن رہتے تھے80سال کی عمر پا کر 1998ء میں آپ نے وفات پائی شیا قو ٹیک میں لنک روڈ پر آپ کا مزار واقع ہے اللہ پا ک آپ کی روح کو دائمی راحت اور سکون نصیب کرے۔