بحرین کی علمی مجلس
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
سوات کا پُرفضا مقام بحرین جہاں سیاحت کے لئے شہرت رکھتا ہے وہاں لسانیاتی تنوع، رنگارنگی اور علمی مجالس کے لئے بھی مشہور ہے۔ 11اور 12مئی 2024کو بحرین میں پہاڑوں کی گونج یا صدائے باز گشت ایک بلند پایہ علمی مجلس اور مذاکرے کی صورت میں سنائی دی۔ اگلے روز اخبارات میں اس کی رپورٹیں شاءع ہوئیں سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں اس علمی مذا کرے کا چرچا چل رہا ہے اور یہ چرچا بحرین سیمپوزیم کے نام سے ہو رہا ہے۔
بحرین سیمپو زیم کا عنوان شمالی پا کستان تھا جو خاموش، پرامن اور خوب صورت پاکستان ہے علم و ادب کا امین ہے گونا گوں ثقا فتی گلدستوں کا محافظ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ اپنے دامن میں بے پناہ علمی اور ثقا فتی میراث رکھتا ہے بحرین سیمپوزیم میں چترال، دیر، سوات، کوہستان اور گلگت بلتستان کے نامور ادیبوں، شاعروں اور محققین نے شرکت کی سیمینار کے پہلے روز شمالی پاکستان کی تہذیب و ثقا فت، ماضی، حال اور مستقبل کے مختلف پہلووں پر جامع پُر مغز اور بصیرت افروز مقالے پڑھے گئے۔
دوسرے روز علمی اور ثقا فتی و سما جی مو ضو عات پر مبا حثوں کا اہتمام ہوا جن کو انگریزی میں پینل ڈسکشنکہا جاتا ہے مقررین نے شمالی پا کستان، بلو ر اور دردستان کی تاریخ، تہذیب و ثقافت اس کی شناحت، زبان و ادب اور مو سمیاتی تبدیلی کے جما لیا تی، بشریاتی اور سائنسی پہلووں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی، مندوبین میں پروفیسر ممتاز حسین، رازول کوہستانی، ہدایت الرحمن، حاجی باقر، محمد زمان ساگر، امیر حیدر، عاشق فراز، افتاب احمد، اظہرعلی، عمران خان آزاد، شمس الرحمن شمس، جاوید اقبال تور والی، زبیر توروالی، ڈاکٹرعاطف چوہدری، رحیم صابر، رحمان ہمدرد، سجاد احمد اور دیگر دانشور وں کی ایک کہکشان نظر آئی جس میں پہاڑوں کی خو شبو کے ساتھ لا ہور کی صدائیں بھی شامل تھیں بحرین سیمپو زیم کا اہتمام اپر سوات سے اُٹھنے والی سما جی اور علمی تنظیم یعنی ادارہ برائے تعلیم و تر قی نے کیا تھا، انگریزی، اردو، پشتو اور توروالی زبانوں کے نامور لکھاری اخباری دنیا کی جانی پہچانی شخصیت زبیر توروالی اس کے روح رواں ہیں آپ کی مادری زبان تور والی ہے۔
مادری زبان کے ساتھ گاوں میں گاوری اور پشتو روانی کیساتھ بولتے ہیں ملک کے دیگر حصوں میں جائیں یا یو رپ اور امریکا کے کسی شہر میں ہوں تو اردو اور انگریزی اس طرح بولتے ہیں کہ ان پر اہل زبان کا گما ن ہوتا ہے ادارہ برائے تعلیم و تر قی کا قیا م 2007 میں عمل میں آیا اس کا زیا دہ ترکام تور والی زبان کے ثقا فتی ورثے کے تحفظ پر ہے تور والی لغت، تور والی سکول، توروالی نصاب اور تور والی موسیقی کے مٹتے ہوئے ورثے کا احیا اس کے کاموں میں اولیت رکھتے ہیں جب تور والی زبان پر کام شروع ہوا تو شمالی پاکستان کی دیگر زبانوں پر بھی کام کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اس طرح دیر، کوہستان، گلگت بلتستان اور چترال کے ادیبوں اور شاعروں، فنکا روں کے ساتھ روابط قائم ہوئے اور شمال کے پہاڑی علا قوں میں بولی جانے والی دیگر زبانوں مثلاً شینا، بروشسکی، بلتی، کھوار، گاوری، کوہستانی وغیرہ کے نامور دانشوروں اور فنکاروں کا وسیع حلقہ قائم ہوا۔ یوں ادارہ برائے تعلیم و ترقی ایک ایسی تنظیم کے طور پر سامنے آئی جو گندھارا ہند کو بورڈ پشاور کے بعد مختلف زبانوں کے لکھنے والوں کے لئے ایک چھت کے نیچے مل بیٹھنے کا دوسرا ذریعہ بن گئی۔
بحرین سیمپوزیم کی اہم پیش رفت یہ ہے کہ تہذیبی اور ثقا فتی ور ثے کے ساتھ ساتھ ما حو لیا تی ور ثے کو بھی تحفظ دینے اور مو سمیا تی تغیر کے نقصان دہ اثرات کا مقا بلہ کرنے کے لئے نا درن پا کستان ریسرچ اینڈ ڈیو لپمنٹ فورم کا قیا م عمل میں لا یا گیا جو وسیع تر تنا ظر میں کام کرنے کے قابل ہو گا ، بحرین سیمپوزیم کے دوران پڑھے گئے مقالات کو مقررین کی تفصیلی اراء اور فورم کی قرار دادوں کے ساتھ اردو میں شاءع کیا جا ئے گا اور یہ روداد کے علمی مجلہ سر بلند کا ضخیم شما رہ ہو گا، بحرین کی علمی مجلس ہ میں علا مہ اقبال کے کلا م میں مر دکوہستانی کی یا د دلا تی ہے گویا فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی۔