پرستان قبل از اسلام
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
علمی دنیا میں نئی تحقیق کے لئے نئے زاویے اور نئے گوشے تلاش کئے جاتے ہیں۔ ان زاویوں اور گوشوں میں سے ایک گوشہ یہ ہے کہ ہمالیہ قراقرم اور ہندوکش کی پہاڑی وادیوں میں اسلام کی روشنی پھیلنے سے پہلے لوگوں کا رہن سہن کیسا تھا اور عقائد یا توہمات کیا تھے۔ اسلا م نے لوگوں کی زندگی میں کس طرح انقلاب لایا اور آنے والی نسلوں کو کس طرح متاثرکیا۔
اس پر یورپ میں بڑا کام ہور ہا ہے وہاں کی سائنسی اکیڈیمیوں میں اس پر تحقیق ہو رہی ہے۔ یونیورسٹیوں میں اس پر سمینار اور کانفرنسیں منعقد کی جارہی ہیں۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی کے بڑے بڑے علمی ادارے اس موضوع پر نت نئے زاویوں سے روشنی ڈال رہے ہیں۔ حال ہی میں اٹلی کے شہر روم سے ایک علمی ایسوسی ایشن اسمیو نے ہندو کش اور قراقرم میں ما قبل اسلا م کی ثقافت پر 5سے 7اکتو بر 2022تک روم میں منعقد ہونے والی بین لاقوامی کانفرنس کی روداد کو دو جلدوں میں شاءع کیا۔
ڈاکٹر اے وی روزی نے اس کا مقدمہ تحریر کیا البر ٹو ایم کا کو پارڈو نے پیش لفظ لکھا ، پہلی جلد میں 41محققین کے مقا لا ت کو جگہ دی گئی ہے جن میں چار کا تعلق پا کستان سے ہے ، دوسری جلد میں 39محققین کے مقا لا ت لا ئے گئے ہیں ، مقا لہ نگا روں کو پوری جلد لینے کی آزادی بھی ہے اپنے مقا لے کی مطلو بہ کا پیاں خرید نے کی بھی اجا زت ہے کا غذی کتاب کو خوب صورت جلدوں میں خرید نے کے لئے 40%رعایت کی سہو لت دی گئی ہے دونوں جلدیں 10ماہ بعد کمپیوٹر کی مدد سے پی ڈی ایف فائل کی صورت میں بھی دستیات ہونگی۔ سردست تمام مندوبین کو ان کے مقا لوں کی پی ڈی ایف فائلیں بطور تحفہ بھیجدی گئی ہیں جو منتظمین کی طرف سے مصنفین کے تحقیقی کام کا برملا اعتراف ہے اور قدر شناسی کی ایک مثال ہے۔
کسی علمی کانفرنس کی سب سے بڑی کامیابی کو اس کی روداد شاءع ہو نے پر معلوم کیا جاتا ہے جب اس کی روداد کتب خانوں اور کتب میلوں کی رونق بنتی ہے تو محققین کانفرنس میں پڑھے گئے۔ مقالات سے استفادہ کر تے ہیں اپنی تحقیق میں ان مقالات کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس طرح اس مو ضوع پر نئی تحقیق کی راہ ہموار ہو تی ہے اور کانفرنس میں مقا لہ پیش کرنے والے ما ہرین کو ان کے کام کی پذیرائی ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی کانفرنس کی روداد شاءع ہونے کا بے تا بی سے انتظار کیا جاتا ہے جس کانفرنس کی روداد اور اس میں پڑھے گئے۔ مقالات کی اشاعت سامنے نہ آئے اُس کانفرنس کو نا کام تصور کیا جا تا ہے کے تحت روم میں روٹس آف پرستان کے نام سے ڈیڑھ سال پہلے جو کانفرنس منعقد ہوتی تھی اس کی روداد میں تبت، لداخ، گلگت بلتستان سے لیکر دیر، چترال، سوات اور نورستان (قدیم بشگل) تک تین مما لک کے اہم علا قوں کی قدیم ثقافت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مقالہ نگا روں میں چترال کی وادی کالاش کے تاج خان بھی شامل ہیں۔ امریکی ماہر لسا نیات ڈاکٹر ایلینا بشیر، جرمن جیوگرافر ہرمن کروز من، اور جرمن تاریخ دان وولف گنگ ہولز وارتھ کا نام بھی آیا ہے۔ پاکستان سے جن مقالہ نگاروں کے مقالے شاءع ہوئے ہیں ان میں عبدالصمد، ہدایت الرحمن اور راقم الحروف عنایت اللہ فیضی کے نام آتے ہیں۔
ادبی حوالوں سے جان موک، ہنرک لیلی گرین اور سٹیفا نو پیلو کے مقا لوں کی گونج بہت اونچی سنا ئی دیتی ہے ڈاکٹر سٹیفا نو پیلو نے آگسٹو کاکو پارڈو کی طرح چترال میں فیلڈ ورک کیا ہے ان کو یہ سہو لت حا صل ہے کہ وہ پرو فیسر ہولز وارتھ کی طرح فارسی میں مہارت رکھتے ہیں ان کا جو مقالہ زیر نظر جلد میں شاءع ہوا ہے وہ چترال میں اٹھا رویں صدی کے صوفی شاعر بابا سیر (1730ء 1815ء ) کے کلام میں صوفی روایات اور مناظرہ عقائد کے حوالے سے ہے ایک اطالوی محقق نے شاعر کے کلام کا نچوڑ پیش کیا ہے۔