شاہ خرچیاں سلامت ہیں
دھڑکنوں کی زبان
محمد جاوید حیات
قوم قرضوں تلے دبی سسکیاں لے رہی ہے۔ مہنگاٸی نے کمر توڑ دی ہے۔ جینا حرام ہو گیا ہے۔ لوگ لقمے کو ترس رہے ہیں۔ ایک آرزو انگھڑاٸی لیتی ہے کہ منتخب حکومت آۓ گی کچھ اچھا ہوگا۔ اچھے دن آٸیں گے۔۔ جمہوریت تبدیلی کی نوید ہوتی ہے۔ خوشحالی در پہ دستک دے رہی ہے۔ اربوں روپے کے خرچے سے انتظامات ہوتے ہیں۔ الیکشن کی گہماگہمی ہوتی ہے۔ ہاٶ ہو نعرے شعرے، وعدے دعوے۔ انتخابات کا مرحلہ ختم ہوتا ہے۔۔ دھاندلی چوری کا شور اٹھتا ہے پھر تھم جاتا ہے۔۔ نماٸندے پر تعش کاروں میں کشادہ سڑکوں پر فراٹے بھرتے ہیں۔ مہنگے ہوٹلوں میں پارٹیاں ہوتی ہیں۔ سڑکوں پر دودو چار چار بلکہ بیسیوں گاڑیوں کا پروٹوکول ہوتا ہے۔ ادھرٹماٹر کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں آٹا دال چاول گھی عام لوگوں کی رساٸی سے باہر ہیں۔ فاقوں قرضوں کی نوبت ہے قوم بھکاری بن رہی ہے۔ رلیف کے نام پہ (احساس پروگرام، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، پیکچ ) وغیرہ کے نام سے قوم بھکاری بن رہی ہے۔ بے روزگاری نےجوانوں کو مفلوج کر رکھی ہے اتنے میں لیڈروں کو اللہ کی یاد آتی ہے ایک فوج ظفر موج اللہ کے گھر حاضری دینے روانہ ہوتی ہے ان کے دورے پر اربوں خرچہ آتا ہے۔
آٸی ایم ایف نے شرط لگاٸی ہے کہ گیس اور تیل کی قیمتیں دوگنی کرو ۔پنشن ختم کرو ۔نوکریوں پر پابندی لگاٶ ۔۔شاید اس نے یہ بھی کہا ہو ۔۔کہ پارلیمنٹ میں نماٸندوں کے بلوں پر دستخط کرنے پہ تمہیں شرم آۓ گی ان کی مراعات دوگنی کرو ۔انتظامیہ کے اہلکاروں کو قیمتی گاڑیوں سے نوازو۔۔ ان کے لیے تیل بجلی گیس مفت مہیا کرو وہ ملک چلا رہے ہیں۔ ججوں کی تنخواہیں اور مراعات دوگنی کرو وہ انصاف مہیا کر رہے ہیں۔ پولیس کی جیبیں بھردو وہ قانوں کے پاسبان ہیں۔ اشرافیہ عیاشیوں کی مد میں کھٹن محسوس نہ کرے۔۔ باقی عوام کلانعام کیڑے مکوڑے ان کو مرنے دو۔ اگر روٹی نہیں ہے تو بسکٹ کھاٸیں۔ اس ملک کو کس منہ سے فلاحی جمہوری ملک کہہ سکیں ۔یہ مجبور عوام کہاں جاۓ جاۓ پناہ کہیں نہیں۔کسی سے کوٸی توقع بھی نہیں۔ جو غریبی مجبوری دیکھی نہیں اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ غریبی ختم کرکے خوشحالی لاۓ۔ جو عیاشی کے لیے پارلمنٹ پہنچتا ہے اس سے کیا توقع کہ وہ کسی مجبور کا درد محسوس کرے ۔جو دھونس دھندے سے سیٹ لیتا ہے اس سے کیا توقع کہ قوم کی خدمت کرے۔
یہ محض خواب جو ہم پچھلے ستر سالوں سے دیکھتے آۓ ہیں ابتداٸی ایک دو سال اگر کسی نے ہمارا غم کھایا ان کو چھوڑ کر ہم نے روشنی نہیں دیکھی۔ اب تو دنیا کے ٹاپ سکالر اور سیاست دان کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کو بھول گۓ ہیں یہ ایسا ملک نہیں رہا کہ اس پر تبصرہ کیا جاۓ۔ اس میں نہ کسی کو اس کی تعمیر کی سوچ ہے نہ سفارتکاری قابل توجہ ہے نہ باہر دنیا کے ساتھ ان کی پالیسی قابل توجہ ہے ۔یہ چند مستنڈوں کا عشرت کدہ ہے اس پر کوٸی کیا توجہ دے ۔کیا قصور اس سر زمین کا ہے کہ اس کی یہ حالت ہوگٸ ہے یا قصور عوام کا ہے یا قصور لیڈرشپ کا ہے۔ جب تک یہ شاہ خرچیاں سلامت ہیں ملک میں تبدیلی نہیں آنی۔ عوام کی اس ناگفتہ بہ حالت پہ اگر اللہ رحم فرماۓ لیکن قانون فطرت بھی ہے کہ اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلے گا جب تک اس کو اپنی حالت بدلنے کی فکر نہ ہو۔۔۔