شیر ولی خان اسیر
منفی گمان رکھنا گناہ ہے لیکن اپنے علم و دانش، تجربات و مشاہدات کے مطابق امریکہ بہادر کی دوستی اس کے اپنے مفادات کی خاطر زندہ رہتی ہے۔ جہاں اس کو بادشاہت اور فوجی ڈکٹیٹرشپ میں فایدہ نظر آتا ہے وہ ان کی حمایت کرتا رہتا ہے اور جہاں اسے دور حاضر کی نام نہاد جمہوریت میں اپنی بھلائی دکھتی ہے وہاں پر جمہوریت کا چیمپیئن نظر آتا ہے۔ اپنے ملک کی مثال لیجئیے۔ 1957 سے 1969 تک فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ساتھ دوستی رہی لیکن 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔ اسی طرح 1971 میں جب بھارت پاکستان کے اندرونی معاملے میں کود پڑا اور مشرقی محاذ پر جنگ کھول دی تو زبانی جمع خرچ کے ساتھ فوجی مدد کا جھوٹا پروپیگنڈہ رچا کر بھارت کو پاکستان توڑنے میں مدد کی۔
جنرل ضیا الحق کی طویل فوجی حکومت میں امریکہ نے پاکستان کے ساتھ بظاہر پکی دوستی نبھائی اور ڈالروں کی بارش کر دی کیونکہ پاکستان روس کے خلاف امریکہ کی جنگ لڑ رہا تھا ۔ روس کی پسپائی کے بعد ضیالحق ہوائی حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔ ڈالروں کی آمد بند، تربیت یافتہ مجاہدین کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ چاہیے تھا کہ ان مجاہدین کو پاک فوج میں شامل کیا جاتا اور ان کے گھروں کے چولہے جلتے رہتے اور ان کے بال بچوں کی پرورش کا بندوبست جاری رہے تو آج نہ القاعدہ پیدا ہوتا اور نہ طالبان وجود میں آتے۔
اس وقت ملک کی سیاسی اور امن و امان کی حالات کے پیچھے بھی پاکستان کے عوام کی اکثریت کو امریکہ کا خفیہ ہاتھ ہی نظر آتا ہے۔ ہم میں سے ہر کو اس بات کا علم ہے کہ امریکہ روس اور چین کے خلاف معاشی جنگ لڑ رہا ہے۔ انہیں گرم پانیوں تک پہنچنے سے باز رکھنے کی انتھک کوشش کررہا ہے تاکہ وہ اپنے مصنوعات آسانی سے برآمد نہ کر پائیں۔۔ اس لیے پاکستان اور افغانستان میں سیاسی عدم استحکام اور امن و آمان کی کشیدہ حالات پیدا کرنے کی بالواسطہ کوشش میں مصروف ہے۔
ایک عرصے سے امریکہ پر یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ امریکہ پاکستان اور افغانستان کے مزید ٹکڑے کرنا چاہتا ہے کیونکہ امریکہ پاکستان کی جوہری طاقت اور افغانیوں کی مجاہدانہ جذبے سےخوف زدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام کی واضح اکثریت امریکہ کے خلاف ہے۔
اگر امریکہ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ مخلص ہے اور اس خطے میں امن و ترقی کا خواہاں ہے تو یہ پراکسی جنگ بند کرے ۔ پاکستان امریکہ ، برطانیہ یا کسی دوسرے مغربی یا مشرقی ملک کا غلام نہیں ہے۔ یہ ایک آزاد ریاست ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی کی بنیاد دنیا کے سارے ممالک کے ساتھ برابری کی دوستی پر ہے۔ دوسرے ممالک کو بھی اس کی آزاد خارجہ پالیسی کا احترام کرنا چاہیے تاکہ اس دنیا میں اولاد آدم آمن اور خوشی کے ماحول میں جی سکیں۔
ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اندرونی اختلافات کو بھلا کر اپنے ملک میں امن کے قیام اور بیرونی قرضجات سے نجات حاصل کی طرف توجہ دیں اور خارجہ پالیسی میں امریکہ اور یوروپی ممالک کے ساتھ ساتھ ایشیائی اور جنوب ایشیائی طاقتوں اور چھوٹے ممالک کے ساتھ دوستی میں مساوات قائم کریں۔ اللہ کی اس دھرتی کو اس کی مخلوقات کے لیے پر امن اور خوشحال بنانے کا سوچیں ورنہ نہ صرف اس دنیا میں خوار ہوں گے بلکہ روز محشر میں بھی بڑی سزاء تمہاری منتظر ہوگی۔

