سڑک کی تعمیر کے ماحولیاتی اثرات
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
عوامی سطح پر پہلے سڑک کی تعمیر کا مطالبہ ہوتا ہے مگر سڑک بننے سے پہلے اُس گاوں یا اُس وادی میں ماحولیاتی بربادی اپنا ٹھکا نہ بنالیتی ہے اور سڑک کا مطالبہ کرنے والے اس تباہی کے خلا ف سراپا احتجا ج بن جاتے ہیں خاص طورپر پہاڑی اضلاع میں جب سڑک کے منصوبے پر کام شروع ہوتا ہے تو پہاڑوں اور چٹانوں کا سارا ملبہ قریبی ندی نالوں میں ڈال دیا جاتا ہے اس ملبے کی وجہ سے ندی نالوں کی طعیانی سیلاب کی صورت میں باغات کو ملیا میٹ کر دیتی ہے تعمیراتی کمپنی کے ساتھ مقامی آبادی کا آئے روز جھگڑا چلتا ہے مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں ہوتا تعمیراتی کمپنی کہتی ہے کہ سڑک بنا نے والے محکمے کی طرف سے کمپنی پر کوئی ذمہ دار ی نہیں ڈالی گئی، منصوبے کا جو کنسلٹنٹ ہے وہ بھی ملبہ ہٹا کر کسی دور مقام پر ماحول دوست طریقے سے ٹھکانے لگانے کی کوئی گنجائش نہیں رکھتا
عوامی نمائندے کہتے ہیں کہ پاکستان انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت سڑک بنانے والا محکمہ اس بات پر پابند ہے کہ تعمیراتی کام کا ملبہ ندی نالوں میں ڈال کر ماحول کی بربادی کا سبب نہ بنے کنسلٹنٹ بھی اس بات کا پابند ہے کہ تعمیراتی کمپنی کو ملبہ ہٹانے کا با قاعدہ معاوضہ تعمیراتی کام کے بل میں شامل کرکے ریگولر ادائیگی کروائے اگر اس میں کوتاہی ہوئی تو ماحو لیاتی ایکٹ کے تحت دونوں پر بھاری جرما نہ عائد ہوگا جب متاثرہ فریق پی پا 1997کے تحت صو بے میں قائم خصوصی ماحولیا تی ٹریبونل سے رجوع کرے گا تو تعمیراتی محکمہ، کنسلٹنٹ اور تعمیراتی کمپنی تینوں پر فرد جرم عائد ہوگی
ایکٹ کے تحت متعلقہ پو لیس سٹیشن میں تینوں کے خلا ف ایف آئی آر کٹوائی جاسکتی ہے خیبر پختونخواہ کے پہاڑی اضلا ع میں تعمیراتی کمپنیوں کی غفلت اور من مانی کے سبب کئی خوب صورت گاوں اور دیہات سیلا ب کی زد میں آچکے ہیں سوات، بو نیر، شانگلہ، دیر اور چترال میں اس طرح کی تبا ہی اور بر بادی کی کئی مثا لیں مو جود ہیں اور کئی جگہوں پر ما حو لیا تی بر بادی کا یہ گھناونا کھیل اس وقت جاری ہے پی پا 1997کے تحت تعمیراتی محکمے اور اس کے کنسلٹنٹ کی قا نونی ذمہ داری بنتی ہے کہ سڑک کا منصوبہ شروع کرنے سے پہلے ماحولیاتی نقصانات کا جائزہ، انوائر نمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ کے لئے متعلقہ دیہات کے لو گوں کو جمع کر کے مشاورتی اجلاس منعقد کریں اس مشاورت کی دستا ویز ضلعی انتظامیہ کو فراہم کریں اور کام شروع ہونے سے پہلے متا ثر ہونے والے دیہات کو بچا نے کے لئے تعمیراتی ملبہ ہٹانے کا معقول اور سائنسی، تکنیکی بنیا دوں پر درست انتظا م کر کے ضلعی انتظا میہ اور مقا می کمیو نیٹی کو اعتماد میں لے لیں
اس قانون کو بنے ہوئے 27سال ہو گئے، سی اینڈ ڈبلیو اور نیشنل ہائی وے اتھا ر ٹی نے ایک بار بھی اس قانون پر عمل نہیں کیا متاثرہ فریق نے ایف آ ئی آر کٹوا کر ما حو لیاتی ٹریبو نل کے ذریعے ذمہ دار محکموں کو قرار واقعی سزا نہیں دلوائی، گذشتہ چند مہینوں سے چترال لوئیر اور چترال اپر کے عوام سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں این ایچ اے اور سی اینڈ ڈبلیو کی عفلت سے ایون، ریشن اور بونی کے سر سبز و شاداب دیہات سیلاب کی زد میں آچکے ہیں تعمیراتی محکمے کے حکام نہ درخواست پڑھتے ہیں نہ قرارداد پر توجہ دیتے ہیں نہ اخباری رپورٹوں کو خا طر میں لاتے ہیں نہ ضلعی انتظامیہ کی رپورٹوں پر غور کرتے ہیں گویاکوئی قانون ہی نہیں، انوائرنمنٹل ٹریبو نل کوئی عدالت ہی نہیں اگر نئی صوبائی اور وفاقی حکومتوں نےعملدرآمد کر وایا تو سڑک کی تعمیر سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی بر بادی کا سد باب ہو گا۔