ایٹم بم، پاکستان اور جمہوریت
سرور کمال چترال
میرے اکثر قارئین اس عنوان کو پڑھ کر سوچ بچار میں مبتلا ہوں گے۔ یقینا اس عنوان کے الفاظ کا اپس میں ربط و ضبط، مناسبت، تال میل اور ہم اہنگی کا فقدان نظر اتا ہے۔ لیکن حقیقت میں اگر پاکستان کے موجودہ اندرونی اور سیاسی صورتحال پر غور کیا جائے تو یہ عنوان اس کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔
ہم میں سے اکثر نے یقینا زمانہ طالب علمی کے دوران فزکس میں نیوکلیئر چین ری ایکشن کے بارے میں پڑھا ہوگا۔ ایٹم بم سے نکلنے والی توانائی جو حرارت کی شکل میں ہوتی ہے اسی نیوکلیئر چین ری ایکشن کے اصول پر کاربند تھے- سادہ ترین الفاظ میں اس ری ایکشن کے ذریعے جو توانائی خارج ہوتی ہے وہ فورا زائل یا ختم نہیں ہو جاتی بلکہ وہ زیادہ شدت اور تیزی سے ایک چین کی صورت میں مسلسل کئی مرحلوں تک اگے توانائی خارج کر رہی ہوتی ہے۔
حالیہ انتخابات سے صرف چند دن پہلے ملک کی سب سے بڑی مقبول جماعت یعنی پاکستان تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم رکھا گیا- لوگوں کی بنیادی حقوق کے معاملے کو پس پشت ڈال کر ٹیکنیکل گراؤنڈ پر یہ فیصلہ صادر کیا گیا- بدقسمتی سے نیوکلیر چین ری ایکشن کی طرح اس فیصلے کے افٹر شاکس ابھی تک ہمارے جمہوری عمل پر مرتب ہو رہے ہیں_ سپریم کورٹ اف پاکستان اور اس کے معززججز قابل قدر ہیں اور ان کا تہزیک قابل گرفت عمل ہے_ لیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کے فیصلے پر اپنے رائے کا اظہار کرنا ایک عام شہری کا حق ہے۔ جس کی بہترین مثال بھٹو کی پھانسی ہے اور اس کو اکثر لوگ جوڈیشل مرڈر سے تعبیر کرتے ہیں- اور اج کل سپریم کورٹ اف پاکستان میں بھٹو ریفرنس لگا ہوا ہے۔ بظاہر تحریک انصاف سے ان کا انتخابی نشان چھین جانا ایک بے ضرر سا عمل لگتا ہے لیکن اس کے تباہ کن اثرات ہمارے جمہوری عمل پر مرتب ہو چکے ہیں۔ اس فیصلے کی وجہ سے وفاداریاں تبدیل کرنے اور ہارس ٹریڈنگ کے عمل کو تقویت ملی جو ہمارے جمہوری عمل اور اس کے اصل روح کے برخلاف ہے_ اسی طرح اس فیصلے کی وجہ سے مرکز میں پارلیمان کی اجلاس بلانے اور حکومت سازی کا عمل کھٹائی میں پڑ چکا ہے۔
اسی طرح پنجاب میں اپوزیشن نے وزیراعلی کے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا_ اسی فیصلے کی وجہ سے اج کل مرکز اور پنجاب میں کمپوزیشن اف پارلیمنٹ کا مسئلہ الیکشن کمیشن اف پاکستان کے لیے درد سر بنا ہوا ہے_ سیاسی ٹھہراؤ اور استحکام کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو دیوار سے مزید نہ لگایا جائے اور اس کی ریزرو سیٹیں جتنے بھی بنتی ہیں وہ ان کو دیا جائے اور فارم 45 کے تحت الیکشن کمیشن اف پاکستان اور ٹرائیبیونلز تمام شکایت کنندہ کا فیصلہ کریں_ استحکام پاکستان کے لیے لوگوں کا جمہوری عمل پر یقین بہت ضروری ہے۔