امداد باہمی
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
اپنی مدد آپ ہر شہری کی بنیادی ذمہ داری ہے زندگی کے بہت سارے مسائل اس ذمہ داری سے حل ہوتے ہیں آپ کینڈا کے کسی بھی گاوں اور شہر میں ایک سال گذار کر مشاہدہ کرینگے تو یہ دیکھ کر سکون اور فرحت محسوس کرینگے کہ برف پڑتی ہے تو ہر شخص اپنے گھر کے سامنے سے گذرنے والی سڑک سے برف کو صاف کرتا ہے، وہ میونسپلٹی کا انتظار نہیں کرتا، پت جھڑکے موسم میں درختوں کے خشک پتے گرتے ہیں تو ہر شخص اپنے گھرکے احاطے میں سڑک سے خشک پتے اٹھا لیتا ہے اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے سڑک صاف ہو جا تی ہے۔
یہ لوگ مزدور یا دہقان نہیں ہوتے، ڈاکٹر، انجینئر، فوجی افیسر، سول افیسر یا بڑے بڑے تاجر ہوتے ہیں سرمایہ دار اور کار خانہ دار ہو تے ہیں سڑک کی صفائی اپنے ڈرائیور یا چوکیدار سے نہیں کرواتے خود بیلچہ یا جھاڑو لیکر باہر نکلتے ہیں اور اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں جن قوموں نے ترقی کی ہے ان قوموں کی ایک مشترک خوبی یہ ہے کہ وہ حقوق نہیں مانگتے ذمہ داریاں نبھاتے ہیں جب ہر شہری اپنی ذمہ داری نبھا تا ہے تو دوسرے شہری کا حق ادا ہوتا ہے حقوق کا جھگڑا ہی ختم ہوجاتا ہے
اسلا می تعلیمات میں ذمہ داری کو فریضہ کہا گیا ہے ہر مسلمان کو اپنا فریضہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ہمارے سما جی نظام میں بھی امداد باہمی یا اپنی مددآپ کے نام سے اپنا فریضہ ادا کرنے کا باقاعدہ دستور مو جو د ہے مگر ہم نے اس دستور کو بھلا دیا ہے اس وجہ سے ہمارے نفسیات میں یہ بات راسخ ہوگئی ہے کہ میرے حصے کا کام کوئی اور کرے گا ہم اجتماعی زندگی میں یہ سمجھتے ہیں کہ جب سب لوگ اپنا کام کر رہے ہیں تو میرے کام نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر محلے میں 100شہریوں کے گھر ہیں اور ان میں سے ہر ایک یہ خیال کرے کہ میرے حصے کا کام میرا ہمسایہ کرے گا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ کوئی بھی اپنے حصہ کا کام نہیں کرے گا۔
قدیم زما نے میں ایک بادشاہ اپنی رعایا کے اس رویے سے تنگ ہوا تو ان کو سمجھانے کے لئے دودھ کا تا لاب بنانے کا اعلان کیا، جب تالاب کو تعمیر کیا گیا تو بادشاہ نے حکم دیا کہ آج رات رعایا میں ہر شخص اپنے گھر سے دودھ کا کٹورا لائے گا اور تالاب میں ڈالے گا، صبح ہوگی تو میں دودھ کے تالاب کو دیکھنے آوں گا، رات ہوئی تو ہر شخص نے سوچا کہ میں کٹورے میں پانی لے جاونگا، جب سب لوگ تالاب میں دودھ ڈالینگے تو میرے پانی کے کٹورے کا پتہ ہی نہیں چلے گا چنانچہ رعایا میں ہر ایک نے پانی کا کٹورا لایا اور تالاب میں ڈالا، صبح کے وقت بادشاہ دودھ کے تالاب کو دیکھنے گیا تو وہاں پانی کا تالاب تھا، اُس نے رعایا سے کہا یہ تمہارا حال ہے تم میں سے ہر ایک نے سوچا کہ میرے سوا سب لوگ دودھ لائینگے، کسی نے بھی دودھ نہیں لایا اور تالاب پانی سے بھر گیا اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا ملک خوشحالی کی منزل کو پا لے تو اپنا فریضہ ایمانداری سے انجام دو، دوسروں سے امید اور توقع نہ رکھو۔
وطن عزیز پا کستان میں شہری حلقوں سے لیکر دیہات اور صحرائی بستیوں سے لیکر پہاڑی آبادیوں تک ہر جگہ عوام کے اندر فراءض کی ادائیگی کا بے پناہ جذبہ مو جود رہا ہے جن شہر یوں نے 1950اور1960کی دہا ئیوں کا معاشرہ دیکھا ہے ان کو اچھی طرح پتہ ہے کہ ہمارے اباءو اجداد اپنی نہریں خود تعمیر کر تے تھے دریا اورندی نا لوں پر لکڑی کے پل بھی اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کر تے تھے، نہروں اور پلوں کی حفاظت اور مرمت کا کام بھی خود کر تے تھے ہر گھر سے مخصوص مقدار میں غلہ جمع کیا جاتا تھا جو ان کاموں کے لئے کاریگروں کے معاوضے میں دیا جاتا ہے پھر ایسا ہوا کہ کا غذ قلم آیا، لوگوں نے درخواست، سپا س نامہ اور قرار داد لکھوا نا شروع کیا۔ گاوں اور محلے کے چھوٹے مو ٹے کاموں کی ساری ذمہ داری حکومت یا خیراتی اداروں کے اوپر ڈال دی، کوڑا کر کٹ جمع ہوا، پانی کا نلکا ٹوٹ گیا، نہر سیلاب کی نذر ہوئی یا پُل سیلاب میں بہہ گیا۔ لو گوں نے درخواست لکھوائی، قرار داد جمع کروائی اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ گئے۔ امداد باہمی اوراپنی مدد آپ کا ذکر آتا ہے تو لوگ کہتے ہیں ہم نے ووٹ دیا ہے یہ ہمارے نمائیندوں کا کام ہے اپنی مسا جد کے وضو خا نے اور غسل گاہیں بھی حکومت کے ذمے ڈال دیے جا تے ہیں، اس فکر اور سوچ نے پسماندگی، غربت، بے روز گاری اور جہا لت کو جنم دیا ہے اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایک بار پھر امداد با ہمی اور اپنی مدد آپ کے جذبے کو دوبارہ زند ہ کریں ہمارے دوتہائی شہری اور دیہی مسائل اس جذبے سے حل ہونگے۔